اسلامی ایٹم بم، ہم تو کہتے ہیں پاکستانی ایٹم بم مگر جو انڈین میڈیا، مغربی میڈیا ہیں وہ اس کو اسلامی ایٹم بم کیوں کہتے رہے؟ 

ڈاکٹر عبد القدیر خان نے اس نا ممکن کام کو کیسے ممکن بنایا اور پھر ایسے موقع پر جب پاکستان ایٹمی پروگرام بنا بھی نا تھا تو انڈیا کے چھکے چھڑا دیئے ان کی مشت تھی بہت بڑی اس مشت کی دھجیاں اڑا دیں،

 ڈاکٹر عبد القدیر خان کی پیدائش انڈیا کے شہر بھوپال میں 1936ء کو ہوئی اور پاکستان بننے کے بعد وہ پاکستان ہجرت کرکے آئے اور وہ 85 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو آپ پاکستان کا محسن کہنا چاھتے ہیں، آپ انہیں سب سے بڑا پاکستانی کہنا چاھتے ہیں جو کہیں وہ ان پر بالکل فٹ ہوتا ہے۔ 

ڈاکٹر عبد القدیر خان اپنی تعلیم کے سلسلے میں ہالینڈ چلے گئے انہوں نے وہاں سے آلا تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ وہاں 4 سال تک (physical dynamical research) ہالینڈ نوکری کرتے رہے، اس وقت انکو وہاں 12,000 تنخواھ ملتی تھی پر انہوں نے اپنے ملک کی خدمت کرنا چاھا پھر وہ 15 برس رہنے کے بعد بھٹو صاحب کے کہنے پر پاکستان واپس آئے جب وہ پاکستان آئے تو 71 والا بڑا مشکل وقت تھا قوم بڑی مایوس تھی تو ذولفقار علی بھٹو نے اس وقت ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اس وقت ڈاکٹر منیر اور دیگر کام کر رہے تھے اس پر، بھٹو صاحب نے ڈاکٹر عبد القدیر صاحب سے بہت ہی سیدھا سی بات کی کہ مجھے ایٹم بم چاھیے اس وقت انکو پاکستان میں صرف 1500 تنخواھ ملتی اس بات کا کافی بار ڈاکٹر صاحب نے اقرار بھی کیا، اب آپ حیران یہ ہوں گہ کہ 1976 کو واپس آتے ہیں اور دس گیارہ سال بعد انڈیا جو بہت بڑی کور اور ڈیویژن لیول کی انڈیا کی تاریخ کی سب سے بڑی مشت تھی اب انہوں نے پاکستان کہ صوبہ سندھ پر حملہ کرنا تھا اب انکا خیال یہ تھا کہ ہم نے 71 والا کام کر لیا تو جب چاھیں کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن اس وقت پاکستان نے فوری طور پر فائر موف کی ان دوران مشاہد حسین سید جو کہ پاکستان کے سینیٹر ہیں انکی شادی تھی اور ایک انڈین صحافی بھی آئے ہوئے تھے انکی ملاقات ڈاکٹر عبد القدیر سے چائے پر ہو گئی تو ڈاکٹر صاحب نے ایک ایسی بات انکے کان میں ڈالی کہ اسکے بعد انہوں نے یہ بات خبر کہ صورت میں چھاپی (یو کے) ایک اخبار کو اور اس وقت تھل تھل مچ گئی اسکے بعد جو فوجیں لائن آف کنٹرول پر لگی ہوئیں تھیں اور اچانک جنرل ضیاء میچ دیکھنے انڈیا پہنچ گئے اور اس وقت کہ وزیراعظم کہ کان میں انہوں نے ایک بات کئی کہ زیادہ آور ہونے کی ضرورت نہیں جو چیز آپ کہ پاس ہے وہ ہمارے پاس بھی ہے کہنا کا مطلب یہ تھا کہ ایٹم بم پاکستان نے بنالیا ہے اور اس وقت پاکستان نے ابھی تجربا بھی نہیں کیا ہوا تھا اور اسکے بعد فوج واپس چلے گئی اور حالات معمول پر آگئ اب آپ کہیں گے پاکستان نے 1998 کو تجربہ کیا ہے 28/مئی کو لیکن ڈاکٹر قدیر کے مطابق 1987، 1988 میں پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل کر لی تھی، جنرل ضیاء نے انکو بلایا اور کہا آپ کو کتنا وقت چاھیے تو انہوں نے کہا ہفتہ سے دس دن میں پاکستان ایٹمی تجربا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عبد القدیرخان وہ مایہ ناز سائنس دان ہیں جنہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ 

گزرتو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر

ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے۔
.

Shares: