یار غار تحریر:محمد آصف شفیق

0
96

حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو  ہجرت مدینہ  کے دوران   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب ہوا  جس کا تذکرہ اس حدیث پاک میں تفصیل سے آیا ہے  آج  ہم اسی  حدیث مبارکہ کا مطالعہ کریں  گے 

یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین (اسلام) سے مزین پایا اور کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام دونوں وقت ہمارے یہاں تشریف نہ لاتے ہوں جب مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار ادہ ہجرت حبش (گھر سے) نکلے حتیٰ کہ جب (مقام) برک انعماد تک پہنچے تو ابن الدغنہ سے جو (قبیلہ) قارہ کا سردار تھا ملاقات ہوگئی اس نے پوچھا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے میری قوم نے نکال دیا ہے میں چاہتا ہوں کہ سیاحی کروں اور اپنے رب کی عبادت کروں ابن الدغنہ نے کہا کہ اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم جیسا آدمی نہ نکل سکتا ہے نہ نکالا جاسکتا ہے تم فقیر کی مدد کرتے ہو رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتے ہو بے کسوں کی کفالت کرتے ہو مہمان کی ضیافت کرتے ہو اور حق کی راہ میں پیش آنے والے مصائب میں مدد کرتے ہو میں تمہارا حامی ہوں چلو لوٹ چلو اور اپنے وطن میں اپنے رب کی عبادت کرو چنانچہ آپ ابن الدغنہ کے ساتھ واپس آئے پھر ابن الدغنہ نے شام کے وقت تمام اشراف قریش میں چکر لگایا اور ان سے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا آدمی نہ تو نکل سکتا ہے اور نہ نکالاجا سکتا ہے کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو فقیر کی مدد کرتا ہے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرتا ہے بے کسوں کی کفالت کرتا ہے مہمانوں کی ضیافت کرتا ہے اور حق کی (راہ میں پیش آنے والے مصائب) میں مدد کرتا ہے پس قریش نے ابن الدغنہ کی امان سے انکار نہ کیا اور ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہہ دو کہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں گھر میں نماز پڑھیں اور جو جی چاہے پڑھیں اور ہمیں اس سے تکلیف نہ دیں اور زور سے نہ پڑھیں کیونکہ ہمیں خوف ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے (اس نئے دین میں) پھنس جائیں گے ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر سے یہ بات کہہ دی کچھ عرصہ تک حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی طرح اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کرتے رہے نہ زور سے نماز پڑھتے تھے اور نہ گھر کے سوا پڑھتے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں آیا تو انہوں نے ایک مسجد اپنے گھر کے سامنے بنا لی اور (اب) وہ اس مسجد میں نماز اور قرآن پڑھتے اور مشرکین کی عورتیں اور بیٹے ان کے پاس جمع ہو جاتے اور ان سے خوش ہوتے اور ان کی طرف دیکھتے تھے بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (رقت قلبی کی وجہ سے) بڑے رونے والے تھے جب وہ قرآن پڑھا کرتے تو انہیں اپنی آنکھوں پر اختیار نہ رہتا اشراف قریش اس بات سے گھبرا گئے اور انہوں نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا جب وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہاری امان کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت کریں مگر وہ اس حد سے بڑھ گئے اور انہوں نے اپنے گھر کے سامنے ایک مسجد بنا ڈالی اور اس میں زور سے نماز و قرآن پڑھتے ہیں اور ہمیں خوف ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے نہ پھنس جائیں لہذا انہیں روکو اگر وہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر میں کرنے پر اکتفا کریں تو فبہا اور اگر وہ اعلان کئے بغیر نہ مانیں تو ان سے کہہ دو کہ وہ تمہاری ذمہ داری کو واپس کردیں کیونکہ ہمیں تمہاری بات نیچی کرنا بھی گوارا نہیں اور ہم ابوبکر کو اس اعلان پر چھوڑ بھی نہیں سکتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ابن الدغنہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا جس بات پر میں نے آپ سے معاہدہ کیا تھا آپ کو معلوم ہے اب یا تو اس پر قائم رہو یا میری ذمہ داری مجھے سونپ دو کیونکہ یہ مجھے گوارا نہیں ہے کہ اہل عرب یہ بات سنیں کہ میں نے جس شخص سے معاہدہ کیا تھا اس کی بابت میری بات نیچی ہوئی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں اور اللہ عزوجل کی امان پر راضی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں مکہ میں تھے پھر نبی نے مسلمانوں سے فرمایا کہ مجھے (خواب) میں تمہاری ہجرت کا مقام دکھایا گیا ہے کہ وہ کھجور کے درخت ہیں اور وہ دو سنگستانوں کے درمیان واقع ہے پھر جس نے بھی ہجرت کی تو مدینہ کی طرف ہجرت کی اور جو لوگ حبشہ کو گئے تھے ان میں سے اکثر مدینہ لوٹ آئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی تیاری کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم کچھ ٹھہرو کیونکہ مجھے امید ہے کہ مجھے بھی ہجرت کی اجازت مل جائے گی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (فرط مسرت سے) عرض کیا میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان کیا آپﷺ کو ایسی امید ہے پھر حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کی وجہ سے رک گئے اور دو اونٹنیاں جو ان کے پاس تھیں انہیں چار مہینہ تک کیکر کے پتے کھلاتے رہے ابن شہاب بواسطہ عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ ہم ایک دن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں ٹھیک دوپہر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کہنے والے نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا (دیکھو) وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پر چادر ڈالے ہوئے تشریف لا رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تشریف آوری ایسے وقت تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی تشریف نہ لاتے تھے حضرت ابوبکر نے کہا میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر قربان واللہ ضرور کوئی بات ہے جبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت تشریف لائے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اندر آنے کی اجازت مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اجازت مل گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اندر تشریف لائے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا اپنے پاس سے اوروں کو ہٹا دو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے (ماں) باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر فدا ہوں جائیں یہاں تو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گھر والی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر فدا ہوں مجھے بھی رفاقت کا شرف عطا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہاں (رفیق سفر تم ہو گے) حضرت ابوبکر نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے (ماں) باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر قربان میری ایک اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  لے لیجئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم تو بقیمت لیں گے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پھر ہم نے ان دونوں کے لئے جلدی میں جو کچھ تیار ہو سکا تیار کردیا اور ہم نے ان کے لئے چمڑے کی ایک تھیلی میں تھوڑا سا کھانا رکھ دیا اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنے ازار بند کا ایک ٹکڑا کاٹ کر اس تھیلی کا منہ اس سے باندھ دیا اسی وجہ سے ان کا لقب (ذات النطاق) ازاربند والی ہوگیا حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ؓجبل ثور کے ایک غار میں پہنچ گئے اور اس میں تین دن تک چھپے رہے عبداللہ بن ابوبکرؓ جو نوجوان ہوشیار اور ذکی لڑکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حضرات کے پاس رات گزارتے اور علی الصبح اندھیرے منہ ان کے پاس سے جا کر مکہ میں قریش کے ساتھ اس طرح صبح کرتے جیسے انہوں نے یہیں رات گزاری ہے اور قریش کی ہر وہ بات جس میں ان دونوں حضرات کے متعلق کوئی مکر و تدیبر ہوتی یہ اسے یاد کرکے جب اندھیرا ہوجاتا تو ان دونوں حضرات کو آکر بتا دیتے تھے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ ان کے پاس ہی دن کے وقت بکریاں چراتے اور تھوڑی رات گئے وہ ان دونوں کے پاس بکریاں لے جاتے اور یہ دونوں حضرت ان بکریوں کا دودھ پی کر اطمینان سے رات گزارتے حتیٰ کہ عامر بن فہیرہ صبح اندھیرے منہ ان بکریوں کو ہانک لے جاتے اور ان تین راتوں میں ایسا ہی کرتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر نے (قبیلہ) بنو ویل کے ایک آدمی کو جو بنی عبد بن عدی میں سے تھا مزدور رکھا وہ بڑا واقف کار رہبر تھا اور آل عاص بن وائل سہمی کا حلیف تھا اور قریش کے دین پر تھا ان دونوں نے اسے امین بنا کر اپنی دونوں سواریاں اس کے حوالہ کردیں اور تین راتوں کے بعد صبح کو ان دونوں سواریوں کو غار ثور پر لانے کا وعدہ لے لیا ( چنانچہ وہ حسب وعدہ آ گیا) اور ان دونوں حضرات کے ساتھ عامر بن فہیرہ اور رہبر ان کو ساحل کے راستہ پر ڈال کر لے چلا ابن شہاب نے فرمایا سراقہ بن جعشم کے بھتیجے عبدالرحمن بن مالک مدلجی نے بواسطہ اپنے والد کے سراقہ بن جعشم سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آ پڑے (جو اعلان کر رہے تھے) کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کردے یا پکڑ لائے تو اسے ہر ایک کے عوض سو اونٹ ملیں گے اسی حال میں میں اپنی قوم بنو مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک آدمی آکر ہمارے پاس کھڑا ہوگیا ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اس نے کہا اے سراقہ میں نے ابھی چند لوگوں کو ساحل پر دیکھا ہے میرا خیال ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھی ہیں سراقہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ تو گیا کہ یہ وہی لوگ ہیں مگر میں نے (اسے دھوکہ دینے کے لئے تاکہ وہ میرے حاصل کردہ انعام میں شریک نہ ہو سکے) اس سے کہا یہ وہ لوگ نہیں بلکہ تو نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے جو ابھی ہمارے سامنے سے گئے ہیں پھر میں تھوڑی دیر مجلس میں ٹھہر کر کھڑا ہوگیا اور گھر آکر اپنی باندی کو حکم دیا کہ وہ میرے گھوڑے کو لے جا کر (فلاں) ٹیلہ کے پیچھے میرے لئے پکڑ کر کھڑی رہے اور میں اپنا نیزہ لے کر اس کی نوک سے زمین پر خط کھینچتا ہوا اور اوپر کے حصہ کو جھکائے ہوئے گھر کے پیچھے سے نکل آیا حتیٰ کہ میں اپنے گھوڑے کے پاس آ گیا بس میں نے اپنے گھوڑے کو اڑا دیا کہ وہاں جلد پہنچ سکوں جب میں ان حضرات کے قریب ہوا تو گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں گر پڑا فورا میں نے کھڑے ہو کر اپنے ترکش میں ہاتھ ڈالا اور اس میں سے تیر نکالے پھر میں نے ان تیروں سے یہ فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں تو وہ بات نکلی جو مجھے پسند نہیں تھی پھر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور میں نے ان تیروں کی فال کی پرواہ نہ کی اور گھوڑا مجھے ان کے قریب لے گیا حتیٰ کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت (کی آواز) سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ادھر ادھر نہیں دیکھ رہے تھے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادھر ادھر بہت دیکھ رہے تھے کہ میرے گھوڑے کے اگلے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں اس کے اوپر سے گر پڑا میں نے اپنے گھوڑے کو للکارا جب وہ (بڑی مشکل سے) سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے اگلے پاؤں کی وجہ سے ایک غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان تک چڑھنے لگا پھر میں نے تیروں سے فال نکالی تو اس میں میری ناپسندیدہ بات نکلی پھر میں نے ان حضرات کو امان طلب کرتے ہوئے پکارا تو یہ ٹھہر گئے میں سوار ہو کر ان کے پاس آیا تو ان تک پہنچنے میں مجھے جو موانع پیش آئے ان کے پیش نظر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب ہوجائے گا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گرفتاری یا قتل کے سلسلہ میں سو اونٹ انعام کے مقرر کئے ہیں اور میں نے انہیں وہ تمام خبریں بتا دیں جو لوگوں کا ان کے ساتھ ارادہ تھا اور میں نے ان کے سامنے کھانا اور سامان پیش کیا لیکن انہوں نے کچھ بھی نہ لیا اور نہ مجھ سے کچھ مانگا صرف یہ کہا کہ ہمارا حال چھپانا پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے درخواست کی کہ مجھے ایک امن کی تحریر لکھ دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا انہوں نے چمڑے کے ٹکڑے پر تحریر لکھ دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زبیر سے ہوئی جو مسلمان تاجروں کے ایک قافلہ میں شام سے آ رہے تھے تو زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہننے کے لئے سفید کپڑے دیئے ادھر مدینہ کے مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے نکل آنے کی خبر سن لی تھی تو وہ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک (آپ کے استقبال کے لئے) آتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا انتظار کرتے رہتے یہاں تک دوپہر کی گرمی کی وجہ سے واپس چلے جاتے ایک دن وہ طویل انتظار کے بعد واپس چلے گئے اور جب اپنے گھروں میں پہنچ گئے تو اتفاق سے ایک یہودی اپنی کسی چیز کو دیکھنے کے لئے مدینہ کے کسی ٹیلہ پر چڑھا بس اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب کو سفید (کپڑوں میں ملبوس) دیکھا کہ سراب ان سے چھپ گیا تو وہ یہود بے اختیار بلند آواز سے پکارا کہ اے گروہ عرب! یہ ہے تمہارا نصیب و مقصود جس کا تم انتظار کرتے تھے یہ سنتے ہی مسلمان اپنے اپنے ہتھیار لے کر امنڈ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقامہ حرہ کے پیچھے استقبال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سب کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ماہ ربیع الاول پیر کے دن بنی عمرو بن عوف میں قیام فرمایا پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے جن انصاریوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تو وہ آتے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کرتے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ آگئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر اپنی چادر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کردیا اس وقت ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں دس دن سے کچھ اوپر مقیم رہے اور یہیں اس مسجد کی بنیاد ڈالی گئی جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر چلے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ چل رہے تھے یہاں تک کہ وہ اونٹنی مدینہ میں (جہاں اب) مسجد نبوی (ہے اس) کے پاس بیٹھ گئی اور وہاں اس وقت کچھ مسلمان نماز پڑھتے تھے اور وہ زمین دو یتیم بچوں کی تھی جو اسعد بن زرارہ کی تربیت میں تھے اور جن کا نام سہل و سہیل تھا اور ان کی کھجورں کا کھلیان تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ یہی ہمارا مقام ہوگا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بچوں کو بلایا اور اس جگہ مسجد بنانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کھلیان کی ان سے قیمت معلوم کی تو انہوں نے کہا (ہم قیمت) نہیں (لیں گے) بلکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم یہ زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہبہ کرتے ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ مسجد کی بنیاد ڈالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام کے ساتھ اس کی تعمیر میں اینٹیں اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے یہ بوجھ اٹھانا اے ہمارے رب بڑا نیک اور پاکیزہ کام ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے اے اللہ ثواب تو صرف آخرت کا ہے انصار اور مہاجرین پر رحم فرما پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی مسلمان شاعر کا شعر پڑھا جس کا نام  مجھے نہیں بتایا گیا ابن شہاب کہتے ہیں کہ احادیث میں ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر کے سوا اور شعر کو پورا پڑھا ہو۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1139   

@mmasief

Leave a reply