کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو تھے؟
جی نہیں معذرت کے ساتھ مجھے جمھور سے اختلاف ہے میری رائے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو نہیں تھے  اُن کے کچھ ایسے راز جو ہم نہ جان سکے اُن کی کچھ باتیں جو ان کے حیات ہونے کے دوران پسِ پردہ رہیں !
حدیث نبوی ہے "تیر بنانے والا” تیر پہنچانے والا اور تیر چلانے والا تینوں جنتی ہیں
قارئین تیر اندازی والوں کے لئیے یہ بشارت کس لئیے ، یہ بشارت اس لئیے نہیں کہ انہوں نے تیر ایجاد کیا بلکہ یہ بشارت اس لئیے ہے کہ انہوں نے اس ایک تیر سے غلبہ اسلام کی کوششیں کی تھیں ۔دین حق کی سر بلندی کے لئیے نعرہ لگانے کا ثمر یہ ملا کہ اس تیر کی تیاری سے لے کر اس کے آخری استعمال تک اس کار خیر میں حصہ لینے والوں کو جنت کی بشارت دے دی گئی
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نہ صرف ایٹم بم نہیں بنایا بلکہ عالم اسلام کو ایٹمی صلاحیت سے لیس کرکے دنیائے کفر میں ایک امر حقیقت کے طور پر ثابت کیا
قارئین یہ وہ وقت تھا کہ جب دنیائے گفر کی طاقتیں "ایٹم بم "کے زور پر ایک دوسرے زیرو زبر کررہی تھیں اس وقت اسی کا ڈنکہ ہوتا تھا جس کے پاس جس ایٹمی ہتھیار ہوتے تھے
تاریخ کائنات میں وہ موڑ تھا جب عالم اسلام عالمِ کفر کے زیرنگیں تھااور انہی کے رحم وکرم پر اپنی بقا چھوڑے ہوئے تھے
تبھی رب کائنات نے پاکستان کی سرزمین کا ایک سپوت چُنا اس وقت اس کے پاس دُنیا کمانے کے لئیے بہت کچھ تھا وہ چاہتا تو اس کی نسلیں عیش کرتی وہ ایک عام انسان نہ تھا بلکہ اعلٰی تعلیم یافتہ سائنسدان اس کو دنیائے کفر کی خدمات کے لئیے بڑا معاوضہ ملتا تھا لیکن اسے جانے کیا سوجھی دنیا کی عیش و عشرت،مال و متاع چھوڑ پاکستان کی جانب چل دیا اور دنیا سے تعلق توڑ عالم اسلام کو ایک عالمی طاقت بنانے کی خواہش لئیے پاکستان میں ڈیرے ڈال دئیے
قارئین پاکستان کے بارے میں یہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کوئی ملک نہیں یہ رب کریم کا معجزہ ہے اور اس پاک ذات کے رازوں میں ایک راز ہے 27 رمضان کو پاکستان کا قیام بذات خود ایک معجزہ ہے اور سرزمین پاکستان اسی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد عالمِ اسلام کا ایک ناقابلِ تسخیر قلعہ بنے کھڑی ہے اور جب جب اسلام پرطکچھ مشکل وقت آیا تو پاکستان یا اس کے سپوتوں نے خدمت اسلام کو جہاد سمجھ کر سر پر کفن باندھ کر اسلام کا نام سر بلند کیا
اسلام کو ناقابلِ فراموش عالمی حقیقت بنانے کے لئیے بھی رب جلال نے سرزمینِ پاکستان اور اس کے مجاہد سپوتوں کا انتخاب کیا اور 6 مئی 1998 کو اقوام عالم نے وہ منظر دیکھا جس کے بعد وہ جان گئے کہ اب اسلام کو تا قیامت کوئی دبا نہ پائے گا
قارئین یہاں یہ بات قابل فکر و تدبر ہے کہ جب پاکستان نے ایٹم بم بنایا تب سے اب تک دُنیائے کفر اسے "اسلامی بم” کے نام سے جانتی ہے گویا یہ ایٹم بم بنانے کا جو معرکہ تھا وہ کوئی ملکی یا قومی معرکہ نہ تھا بلکہ یہ کفر اور اسلام کا معرکہ تھا یہ حق اور باطل کی تفریق کا معرکہ تھا
یہ تاریخ اسلام میں مسلمانوں کی دنیوی زبوں حالئ کے باوجود دنیا میں اپنے نام کو قائم و دائم اور سربلند رکھنے کا معرکہ تھا تو یہ معرکہ "ڈاکٹر عبدالقدیر خان ” نے سر کیا اور حق و باطل میں پھر سے حدِ فاصل قائم کردی !
قارئین اب چلتے ہیں میرے آرٹیکل کے شروع میں دئیے گئے جواب کی جانب اس دلیل پر میں حق پر ثابت ہوا کہ "ڈاکٹرعبدلقدیر خان” قومی ہیرو نہیں بلکہ اسلام کے ہیرو ہیں
اب یہ امر افسوس ناک ہے کہ ہم نے رب کے دئیے ہوئے اس معجزے کو پہچان نہ دی ہم نصابی  اور تاریخی کتب میں اسلامی ہیروز کے نام تو پڑھتے رہ گئے لیکن اس مرد مجاہد کی اس کی اصل پہچان نہ دی
اسلام پہ کئے  گئے اس احسان کو احسان نہ مانا اور اللہ کے اس ولی کے فیض سے محروم رہ گئے
ہم طارق بن زیاد کوتو یاد کرتے ہیں ہم سلطان صلاح الدیین ایوبی کی بہادری کے ڈنکے توبجاتے ہیں ہم سلطان محمودغزنوی کو امت کا لیڈر تو مانتے ہیں لیکن امت مسلمہ کے اس جانباز اور درخشندہ ستارے کو کبھی پہچان نہ پائے اب اسے کامیابی کہیے یا ناکامی قومی خوشنصیبی کہیے یا بدنصیبی ۔اخلاقی انحطاط کانام دیں یا اخلاقی عروج کا اسے سزا سمجھیں یا جزا حقیقت یہی ہے کہ رب کریم نے ہم میں ایک اپنا چُنا ہوا بندہ بھیجا اس سے عالم اسلام کی خدمت کاکام لیا ولیوں جیسی گمنام زندگی دی اور اسی خاموشی سےاسے اپنی طرف بلالیا
ہم نہ تو اس کی خدمات سے فیض لے پائے نا اس ولی اللہ کی پہچان کر اسکی خدمت کا موقع بھی فراہم ہوا
اللہ پاک مرحوم کوکروٹ کروٹ سکون و بخشش نصیب فرمائے اور ہم جیسے بندہ ناچیز سے بھی عالم اسلام کی سربلندی کے لئیے چھوٹاموٹا کام لےلے تاکہ ہمیں بھی شفاعت کا کوئی ذریعہ نصیب ہو
آمین
ستارے تو روز ہی ٹوٹ کر گرتے ہیں
غضب ہوا آج تو آفتاب ٹوٹا ہے 💔

‎@sanaullahakhtar

Shares: