جذبات سے موجزن اور احساس سے لبریز حقائق پر مبنی کہانیاں تو سبھی نے ہی پڑھی اور سنی ہوں گی لیکن کبھی کبھار ان کو پڑھتے ہوئے موجوں کی روانی کی طرح جذبات یوں امڈتے ہیں کہ ان کے رستے میں آنے والے بند بھی ریت کی دیوار ثابت ھوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ چھلکتے ہوئے آنسو دل کو چیر کر جگر کو پارہ پارہ کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ قارئین محترم! ایسی ہی کچھ تذبذب کی حالت سے چند دن پہلے مجھے گزرنا پڑا جب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کا ایک انٹرویو سنا۔ آپ کے اس فقرہ نے تو رلا دیا ”مجھے اس قوم کے لیے کام کر کے پچھتاوا ہوا۔’ ‘ ایسی ہی بہت سی دلخراش باتیں ڈاکٹر صاحب کی ز بان سے سنی تو دل خون کے آنسو رونے لگا۔
ڈاکٹر صاحب عالم اسلام کے وہ نڈر، بیباک اور محب وطن فرد ہیں جن کی شبانہ رو ز محنت کے نتیجہ میں پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنا۔جنھوں نے دن دیکھا نہ رات دیکھی, مال دیکھا نہ صحت دیکھی، صرف اس مشن کی خاطر کام کرتے رہے کہ انڈ یا کے مقابلہ میں پاکستان کا دفاع نا قابل تسخیر ہو جائے۔ شائد اگر ان کی مخلصانہ کاوش نہ ہوتی تو آج ہماری حالت عراق، افغانستان، کشمیر، برما،فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک جیسی ہوتی۔ یہ بات ضرور ہے ک امریکہ کو اس کا قرض چکانہ ہو گا، مسلم امہ ایک دن ضرور بیدار ہو گی،کوئی صلاح الدین ایوبی بھی آئے گا۔(انشااللہ) لیکن بات ڈاکٹر صاحب کی چل رہی ہے کہ انھوں نے گھمبیر صورتحال میں پاکستان کا مستقبل محفوظ کیا، آج ہم عالیشان محلات میں رہ رہے ہیں، اعلی پائے کی گاڑیوں میں امریکی اور روسی ڈرون طیاروں کے خوف کے بغیر سفر کرتے ہیں تو ان تمام کا سہرا ڈاکٹر صاحب کے سر سجتا ہے۔
لیکن! لیکن جب میں آج ڈاکٹر صاحب کی حالت زار دیکھتا ہوں تو کلیجہ پھٹ جاتا ہے، اعضاء شل ہو جاتے ہیں۔ وہ عظیم لیڈر جس پر گل نچھاور کرتے کرتے پھولوں کا فقدان ہو جانا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے اس کے لئے فٹ پاتھ اور قیدو بند کی صعوبتیں ہی بچی ہیں۔ کیا محض ” محسن پاکستان” کا لقب دے دینا ہی کافی تھا، چلیں غیروں کی بات تو ہم نہیں کرتے انھوں نے نہ ہی آپ کو نوبل پرائز دینا تھا نہ دیا، جو اپنے ہیں انھوں نے کیا دیا؟؟؟ کیا ہم نے شہدائے پاکستان کے خون سے یہ وفا کی ہے کہ جتنا کوئی بڑا چور، ڈاکو، لٹیرا اور رہزن ہواسے اتنی ہی زیادہ عزت دی جائے اور مخلص محبان وطن کو پابند
سلاسل کر دیا۔ ارے! جس شخص نے اکیس کروڑ افراد کی حفاظت کی تو ہم سب اس ایک فرد کی حفاظت نہ کر سکے اور انہیں نظر بند کر دیا،چلیں یہ بھی بات مان لی کہ حکومتی صفوں میں چھپے بھیڑیوں نے یہ سب کروایا لیکن بحثیت قوم ہم نے آپ کے لیے کیا کیا؟ ان کی سیاسی جماعت کی بھی سپورٹ نہ کر سکے۔جس شخص کے لیے اگر جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑتا تو گھاٹے کا سودا نہ تھا، اس کے لیے ہم ووٹ کی پرچی بھی نہ دے سکے۔ شائد میرا لہجہ تلخ ہو رہا ہے لیکن ہم نے جو کھرے اور کھوٹے کا معیار سٹ کیا ہے وہ ٹھیک نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم پستیوں کی طرف دھکیلے چلے جا رہے ہیں اور دنیا پر ہمارا دبدبہ ختم ہو رہا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کہ باوجود بھی ہم دبک رہے ہیں۔ آج ایٹمی طاقت کا حصول بھی کسی اور جماعت کے لیڈر سے منسوب کیا جا رہا ہے حالانکہ ڈاکٹر صاحب کی ٹیم نے 1984 میں ہی پروگرام کو حتمی شکل دے دی تھی۔ اس سے کہیں بعد1998 میں باقاعدہ ایٹمی دھماکے کئے اور پوری د نیا کے مسلمانوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔آج اسی پروگرام کے روح رواں کے ساتھ اتنی زیادتی آخر کیوں؟
میں جب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کی باتیں سنتا یوں دل خون کے آنسو روتا ہے، آخر کیا محرکات تھے جنھوں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا؟ ان محرکات کو ‘on air’ کرنا مڈیا کی ذمہ داری ہے۔ میاں محمد بخش نے اسی تناظر کو الفاظ کا روپ دیا تھا
اصلاں نال جے نیکی کرئیے نسلاں بعد نہیں بھلدے
بے اصلاں نال جے نیکی کرئیے پٹھیاں چالاں چلدے
اللہ رب العزت ڈاکٹر صاحب کو عمر خضر عطا فرمائے، لیکن ایک دن خالق حقیقی سے بھی تو ملنا ہے، میں دعوے سے کہتا ہوں آپ کا جناز ہ ‘تاریخی جنازہ’ ہو گا، آپ پر ستم کر نے والے بھی پہلی صف میں نظر آئیں گے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جو افراد ہماری زندگیوں کے ضامن ہیں کیا ہم نے ان سے وفا بھی ان کے جنازہ پہ جا کر ہی کرنی ہے؟ کیا ہمارا جنازہ پڑھنا ان کے ساتھ کی جانے وا لی زیادتیوں کا ازالہ کر دے گا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہمیں آج عملی محاذ پر آپ کے حق میں آواز بلند کرنا ہو گی۔ تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کریں کہ اگر وہ نگران وزیر اعظم کے لیے ڈاکٹر صاحب کا نام پیش کرتے ہیں تو ہم ان کی سپورٹ کریں گے ورنہ ہمارے صبر کا پیما نہ لبریز ہو چکا اب ہمارے رستے جدا ہیں۔ اگر ہم نے ڈاکٹر صاحب سے وفا کی ہوتی تو آج ہمیں بجلی کے بحران سے پالا نہ پڑتا۔ اگر آپ کو مناسب منصب پر فائز کیا جاتا تو آج لوگ اپنی اولادوں کو گلوکار بنا نے کی بجائے ٹیکنا لوجی کے رستے میں ڈال کر سائنسدان بناتے۔ ہمیں ٹیکنا لوجی کا انحصار دوسرے ممالک سے نہ کرنا پڑتا۔ ڈاکٹر صاحب ہم نے آپ کو حقیقی معنوں میں لیڈر نہ مان کر سنگھین غلطی کی۔ ڈاکٹر صا حب ہم سے بھول ہوئی! ڈاکٹر صا حب ہم سے بھول ہوئی!