سادہ سا سوال ہے الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس

0
65
supreme

سپریم کورٹ میں الیکشن سے متعلق تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت ہوئی،

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں

نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان ،سینیٹر فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے، دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے سادہ سا سوال ہے جو الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا ہے کیا الیکشن کمیشن کے پاس ایسا اختیار تھا؟ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے،سادہ سا سوال ہے الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟اگر الیکشن کمیشن کا اختیارہوا تو بات ختم ہو جائے گی، سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کیلئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا جمہوریت کیلئے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی،سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے

اٹارنی جنرل نے انتخابات کیس کے لیے فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کردی ،اٹارنی جنرل نے تحریک انصاف کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی اعتراض کردیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کیلیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی،فارق ایچ نائیک نے کہا کہ ملک میں اس وقت انار کی اور فاشزم ہے، موجودہ سیاسی ومعاشی حالات میں جمہوریت اور ملک کے لیے کیا بہترہے، سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں،انہیں لازمی سنا جائے ،جسٹس جمال مندوخیل نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ آپ یہ پوائنٹ پارلیمنٹ کیوں نہیں لےجاتے؟ اس پر فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھانےکا سوچ رہے ہیں ، جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ کیا نوے روز میں انتخابات کرانا آئینی تقاضا نہیں ہے؟کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کر سکتا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات کیس میں استدعا ہی ازخود نوٹس کے فیصلے پر عملدرآمد کی ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بنچ کے ارکان تحریک انصاف کی درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں اٹارنی جنرل کا انحصار تکنیکی نقطے پر ہے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا،سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کی درخواست پر اعتراضات اور فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا عملاً مسترد کردی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کی اور تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو دلائل شروع کرنے کا حکم دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سماعت کے آخر میں اٹارنی جنرل کی استدعا کو دیکھیں گے،

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں دو ججز کا اختلافی فیصلہ دینے کا معاملہ اٹھا دیا ، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے یہ بتائیں کہ کیا آئین نوے روز میں انتخابات کرانے کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں؟

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی؟ پی ٹی آئی کو پہل کرنا ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں، آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں آپس میں دست وگریباں ہونے کے بجائے ان لوگوں کا سوچیں ، پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ تحریک انصاف اگر پہل کرے تو ہی حکومت کو کہیں گے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن 6 ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو 2 سال بھی کر سکے گا، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیئے؟ جسٹس منیب اختر نے اس بات سے اتفاق کیا۔دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی قانون الیکشن کمیشن کو انتخابات ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا- قانون نے صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے- الیکشن 90 دنوں میں ہی ہونا ہیں-آئین میں واضح لکھا ہے- الیکشن ایکٹ کی سیکشن 58 انتخابات کو منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا-

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس نیشنل کاز کے لئے جو لوگ تنخواہیں لے رہے ہیں ان کو کٹ لگایا جاسکتا ہے؟ ا سے اہم انتخابات کا ٹاسک مکمل کیا جاسکتا ہے،لیکن اس سب پر جواب وزارت خزانہ ہی دے سکتی ہے، وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ نے فنڈز کی فراہمی سے انکار کردیا،جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ انکار وزارت خزانہ کیسے کرسکتا ہے،؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ آئین کے ایمرجنسی prevision میں موجود ہے کہ خراب ترین صورتحال میں انتخابات ملتوی کئے جاسکتےہیں،کیا اس وقت ایسی ایمرجسنی کی صورتحال ہے کہ انتخابات نہ ہوں؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا ایسی کوئی صورتحال نہیں ،،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کے لئے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے، 5 فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے،انتخابات کے لئے پورے بجٹ کی ضرورت نہیں 20 ارب کا کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جاسکتا ہے،

فیڈرل کنسولییڈیٹڈ فنڈ سے رقم کے اجرا پر بھی بحث، فاروق ایچ نائیک نے کہا یہاں سے فنڈ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد خرچ ہوتے ہیں. جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ ابسلوٹلی ناٹ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ابسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا،چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے. دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سب سے زیادہ آپریشن کیے، پنجاب میں اب تک صرف 61 آپریشن ہوئے، سندھ میں 367 جبکہ خیبرپختونخوا میں 1245 آپریشن ہوئے،

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، 2008 میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے 2 آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخ تبدیل کرنے کیلئے صدر سے رجوع کر سکتا تھا،تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کر سکتا ہے ، وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 220 تمام حکومتوں، اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے،الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے موقف لے کر فیصلہ لکھ دیا، دالت کمیشن سے پوچھے آئینی اختیاراستعمال کیوں نہیں کیا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا،ہر ادارہ آئین اور شخص قانون پر عمل کرنے کا پابند ہے، الیکشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی،کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے بھی الیکشن تاریخ 90 دن کے بعد کی دی،آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں، جسٹس اعجازاالاحسن نے کہا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے

دوران سماعت اٹارنی جنرلنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 30 جون تک 170 ارب روپے وصول کرنے کا ہدف ہے،آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا شرح سود میں اضافہ کیا جائے، شرح سود میں اضافے سے مقامی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا 20 ارب روپے جمع کرنا حکومت کیلئے مشکل کام ہے؟ کیا عام انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ صوبوں کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانا وفاق کی آئینی ذمہ داری ہے ،اٹارنی جنرل نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق غریب اورصوبے امیر ہوئے ہیں،معاشی صورتحال سے کل آگاہ کروں گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا تھا الگ الگ الیکشن کروانے کے پیسے نہیں ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ نے الیکشن کمیشن کے بیان پر کہا تھا انہوں نے ایسا کہا ہوگا،جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ معاملہ ترجیحات کا ہے،لیپ ٹاپ کیلئے10ارب نکل سکتے ہیں توالیکشن کیلئے 20 ارب کیوں نہیں؟ فوادچودھری نے کہا کہ ترقی منصوبوں کیلئے بھی ارکان کو فنڈز دیئے گئے ہیں ،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ارکان کو فنڈز دینا عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ ترقیاتی فنڈز سے متعلق ہدایت لے کر آگاہ کروں گا، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کیلئے فنڈز دینا صوبے کی ذمہ داری ہے یا وفاق کی؟ کیا ترقیاتی فنڈز کے اعلان کے وقت آئی ایم ایف کی شرائط نہیں تھیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز والی بات شاہد 5 ماہ پرانی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کیلئے فنڈز فراہم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت سلپمنٹری گرانٹ جاری کی جا سکتی ہے۔

عمران فتنے نے اشتعال انگیزی پھیلا رکھی ہے نوازشریف کو بالکل واپس نہیں آنا چاہیے عفت عمر
گھر سے بھاگنے کے محض ڈیڑھ دو سال کے بعد میں اداکارہ بن گئی کنگنا رناوت
انتخابات ملتوی کرنےکامعاملہ،الیکشن کمیشن ،گورنر پنجاب اورکے پی کو نوٹس جاری
اسلام آباد ہائیکورٹ؛ کراچی کی 6 یوسز میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی روکنے کا حکم

Leave a reply