مزید دیکھیں

مقبول

ممبئی سے نیویارک جانے والی فلائٹ کو دوران پرواز بم کی دھمکی

بھارت کے شہر ممبئی سے نیویارک جانے والی پرواز...

سینیٹر ثانیہ نشتر کا استعفی منظور

اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے...

آئی ایم ایف کا پاکستان پر ریونیو بڑھانے اور اخراجات کم کرنے پر زور

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر...

احتساب ۔۔۔ اسد عباس خان

وہ ایک جاگیردار اور جاگیردار کا بیٹا تھا۔ شنید ہے بچپن میں کبھی کسی فلم یا ڈرامے کا کردار بھی بنا اور لڑکپن میں سینما ہال کے باہر ٹکٹیں بھی بلیک میں فروخت کیں۔ جوانی میں قدم رکھا تو اس وقت کے سب سے بڑے پاکستانی سیاستدان (ذوالفقار علی بھٹو) کی بیٹی (محترمہ بینظیر بھٹو) کو اُچک لیا۔ کچھ لوگ اسے ڈاکو بھی کہتے ہیں اس بات میں تو سچائی کا علم نہیں البتہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپنی ہی اہلیہ کے دور حکومت میں ایام زندگی جیل کی کال کوٹھری میں گزارے۔ جس کا دو مرتبہ کی منتخب وزیراعظم (بینظیر بھٹو) اور ملک کی اہم سیاسی جماعت کی سربراہ کا شوہر ہونے کے باوجود کوئی سیاسی کردار نہیں تھا۔ مرحومہ جب جلاوطنی کی زندگی گزار کر واپس آ رہی تھی اور کراچی میں آمد کے ساتھ ہی محترمہ پر خود کش حملہ ہوا جس میں سینکڑوں قیمتی جانیں گئیں۔ اور پھر خطرے کو دیکھنے کے باوجود مرحومہ نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی یہاں تک کہ راولپنڈی میں ایک اور مہلک حملہ ہوا اور محترمہ اس حملہ میں جاں بحق ہو گئیں تو یہ شخص باہر بیٹھ کر سب کچھ (پلاننگ) دیکھ رہا تھا۔ لوگ جس شخص کو قاتل سمجھ رہے تھے وہ شخص محترمہ بینظیر بھٹو کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ہی ٹسوے بہاتے ہوئے وطن واپس آ پہنچا اور ساتھ ہی ایک خفیہ خط نکال لایا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ میرے بعد آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے سربراہ ہوں گے۔ 2007 کے عام انتخابات میں بینظیر بھٹو کے نام پر پڑنے والے ووٹ کا خوب فائدہ اٹھایا گیا ملک کا صدر منتخب ہونے کے بعد محترمہ کے قاتلوں کو پکڑنے کے بجائے کمال چالاکی سے محترمہ کے معتمد ساتھیوں کو بطور خاص ٹھکانے لگا دیا گیا۔ شدید مخالف حزب اختلاف کو بھی خوب مہارت سے ڈیل کیا۔ جو جس پر خوش ہوا اسے اس ضمانت پر دے دیا گیا کہ میری کرسی کو کوئی گرزند نہ پہنچ پاۓ۔ اس تمام عرصہ میں کرپشن اور بدعنوانی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے، ملکی شرح نمو زوال پذیر ہوئی، برآمدات و درآمدات میں وسیع خلیج پیدا ہونے کے باعث ڈالر کو پر لگ گئے، قومی اداروں کو خوب نقصان پہنچایا گیا ریلوے، پی آئی اے، پاکستان اسٹیل مل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئیں، عدلیہ سے پنگے بازی اور فیصلوں پر عملدرآمد کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے، حسین حقانی جیسے غدار کو امریکہ میں سفیر مقرر کیا اور میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا، سیاست پوری طرح کاروبار کی شکل اختیار کر گئی مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے بچہ بچہ واقف ہوا اور یوں ملکی تاریخ میں پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنی مدت مکمل کی اور زرداری صاحب کا مشہور زمانہ قول "جمہوریت بہترین انتقام ہے” واقعی ریاست اور عوام سے انتقام لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگلی حکومت "ن” لیگ کی آئی تو مسٹر ٹین پرسنٹ نے بظاہر اپنے حریف کے ہر مشکل وقت میں (اندر خانے) خوب یاری نبھائی۔ ہر بار میثاق جمہوریت کا راگ الاپا، وقتاً فوقتاً سندھ کارڈ بھی کھیلا۔ ایان علی، منی لانڈرنگ، فالودے اور سبزی والوں کے ناموں پر کروڑوں اربوں روپوں کی ٹرانزکشن سمیت سینکڑوں بے نامی اور فیک بینک اکاؤنٹ ظاہر ہونے کے بعد جب متعلقہ حکام نے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کیا تو یہی صاحب دھمکیاں دینے پر آ گئے۔ کبھی فوج اور عدالتوں کو بڑھکیں لگائی کہ "وہ تین سال کے لیے آتے ہیں ہمیں ہمیشہ رہنا ہے” اور کبھی "میں ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا” جیسے جملے کسے۔ وفاقی احتساب کے ادارے نیب کے چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا! "چیرمین نیب کی کیا حیثیت ہے اسکی کیا مجال ہے جو میرے اوپر کیسس بنواۓ”
پھر یوں گویا ہوئے کہ نیب کو میں تھکا دوں گا۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
بار بار ضمانتیں ہوتی رہی اور آج جب ضمانت منسوخ ہونے پر نیب نے گرفتار کیا تو پھر پوری دنیا نے زرداری کو بھیگی بلی بنا دیکھا۔ گرفتاری کی ویڈیو دیکھ کر بلاول کی ہنسی بتا رہی تھی کہ وہ بہت خوش ہے۔ شائد اپنی والدہ کے قاتل پکڑے جانے کی خوشی ہو واللہ اعلم
نواز شریف اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے اب زرداری صاحب بھی جیل روانہ ہو چکے ہیں جو شاید میاں صاحب کی تنہائی کے ساتھی بنیں گے۔ بار بار کمینی مسکراہٹ کے ساتھ گیارہ سال جیل میں گزارنے کو بطور فخریہ بتانے اور پھر اس بات پر اترانے والوں کے جیالوں کو سوچنا چاہئے کہ جیلوں سے عزت دار لوگ ڈرتے ہیں چوروں ڈاکوؤں کو اس کی عادت ہوتی ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اصل امتحان اب عوام کا بھی ہے کہ وہ ان چوروں ڈاکوؤں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں کسی احتجاجی تحریک کا حصہ نہ بنیں۔ احتسابی اداروں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بلا تفریق احتساب کا عمل اب رکنا نہیں چاہیے۔

محمد نعیم شہزاد
محمد نعیم شہزادhttp://nawaiwatn.com
محمد نعیم شہزاد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارہ میں انگریزی زبان و ادب کے استاد کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں میں نظم و نثر لکھنے میں خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں آفاقیت اور اجتماعی فلاح و بہبود کا عنصر نمایاں طور پر ملتا ہے۔ فری لانس بلاگر ہیں۔ باغی ٹی وی baaghitv.com @BaaghiTV اور بعض دیگر ویب سائٹس کے ساتھ بطور فری لانس بلاگ ایڈیٹر منسلک ہیں۔ ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ان کا پرسنل اکاؤنٹ وزٹ کریں۔ twitter.com/@UstaadGe