کالم نام : الیکٹرانک ووٹنگ مشین ۔۔۔۔۔۔۔۔ ای وی ایم تحریر : سجاد علی

0
63

الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک خودکار اور جدید ووٹنگ کا نظام ہے جو کہ بہت عرصے سے دنیا میں استعمال ہو رہا ہے۔ کچھ ممالک میں اس کا استعمال حال ہی میں شروع ہوا ہے اور کچھ ممالک اسے مستقبل میں استعمال میں لا سکتے ہیں۔

جن ممالک میں یہ خود کار نظام رائج ہے ان ممالک میں بھارت، ایشیا، یورپ، عرب ممالک، مالدیپ، بیلجیئم، برازیل، فلپائن، مصر، نمیبیا، بھوٹان، یو اے ای، آسٹریلیا، ایسٹونیا، کینیڈا، فِن لینڈ، فرانس، جرمنی، آئیر لینڈ، اٹلی، کازکستان، لتھوئینیا، ملائیشیا ،نیدرلینڈ، ناروے، رومانیہ، ساؤتھ کوریا، سپین، سوئٹزرلینڈ، تھائی لینڈ، یونائیٹڈ کنگ ڈم ،یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ، ونیزویلا وغیرہ شامل ہیں۔

دنیا میں سب سے پہلے اٹھارہ سو اکاسی میں انتھونی برینک نے شکاگو یونائیٹڈ سٹیٹ کے جنرل الیکشن میں اس مشین کا استعمال کیا تھا۔

آئیں اب ذرا دیکھتے ہیں کہ یہ مشین کام کیسے کرتی ہے۔

اس مشین کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصہ پولنگ بوتھ میں رکھا جاتا ہے اور اسے بیلٹ یونٹ کہا جاتا ہے اور دوسرا حصہ پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس پڑا ہوتا ہے اور اسے کنٹرول یونٹ کہتے ہیں۔ اور یہ دونوں یونٹ ایک تار کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی تار یا مشین وغیرہ اس میں نہیں ہوتی۔

اب اس کے خود کار طریقہ کو سمجھتے ہیں کہ یہ کام کیسے کرتی ہے۔

جب ووٹر ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے حلقہ کے پولنگ اسٹیشن جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ پریزائیڈنگ آفیسر کے پاس جا کر کنٹرول یونٹ پر اپنا انگوٹھا لگائے گا۔ اس سے تصدیق ہو جائے گی کہ اس شخص کا شناختی کارڈ نمبر یہ ہے، اور تمام معلومات، رہائش، شناختی علامت وغیرہ سب ڈیٹا کنٹرول یونٹ میں موجود ہے یعنی اس کا اندراج اس مشین میں ہے۔

یعنی جو مشین جس پولنگ اسٹیشن کی ہو گی وہاں کے تمام ووٹرز کے ریکارڈ کا اندراج اس مشین میں کر دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک پولنگ اسٹیشن پر دو ہزار ووٹر ہے تو ان دو ہزار افراد کی مکمل معلومات اس مشین میں ڈال دی جائیں گی. جس میں ان کے شناختی کارڈز کی تمام تفصیلات، انگوٹھے کا نشان، چہرے کی شناخت سب اس یونٹ میں موجود ہو گا۔

انگوٹھا لگانے سے اس شخص کے بارے میں تصدیق ہو جائے گی کہ وہ اس ووٹر لسٹ میں موجود ہے یا نہیں۔
تصدیق ہونے کی صورت میں اس کی تمام تفصیلات، شناختی کارڈ وغیرہ چیک کرنے اور مکمل مطمئن ہونے کے بعد پریزائیڈنگ آفیسر اسے پولنگ بوتھ کے اندر بھیج دے گا۔

پولنگ بوتھ، پولنگ اسٹیشن میں موجود وہ خفیہ جگہ ہوتی ہے جہاں ووٹر اپنا ووٹ ڈالتا ہے۔

پولنگ بوتھ میں اس خود کار مشین کا دوسرا حصہ رکھا ہو گا جسے بیلٹ یونٹ کہتے ہیں۔ یہ ایک کی بورڈ سے مشابہت رکھنے والا یونٹ ہوتا ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے نام، انتخابی نشان وغیرہ کا اندراج ہوتا ہے۔

پولنگ بوتھ میں داخل ہونے کے بعد پولنگ بوتھ میں موجود بیلٹ یونٹ کو پریزائیڈنگ آفیسر آن کرے گا اور ایک بیپ سنائی دے گی اس کے بعد جس کو بھی آپ نے ووٹ ڈالنا ہو اس کے انتخابی نشان پر آپ نے اپنا انگوٹھا لگا کر دبانا ہے اور پھر نیچے موجود اوکے بٹن کو دبا کر تصدیق کرنی ہے اور آپ کا ووٹ ڈل جائے گا۔ اور پھر ایک بیپ بجے گی جس کا مطلب کہ آپ کا عمل مکمل ہو گیا۔ پھر آپ پولنگ بوتھ سے باہر آجائیں گے اور اگلا ووٹر اندر چلا جائے گا۔

ایک ووٹر کی ویریفیکیشن کے بعد مشین صرف ایک دفعہ ہی آن ہو گی، یعنی ایک شناختی کارڈ پر ایک ہی دفعہ آن ہو گی، اور ایک دفعہ انگوٹھا لگانے پر بھی ایک ہی دفعہ آن ہو گی، دوبارہ انگوٹھا لگانے پر مشین آن نہیں ہو گی۔ یعنی دوبارہ انگوٹھا لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یعنی وہ شخص ایک ہی دفعہ ووٹ ڈال سکتا ہے دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکے گا۔

اس لیے بہت آرام، احتیاط کے ساتھ ووٹ ڈالیں تاکہ آپ کا ووٹ ضائع نہ ہو۔

یہ تھا الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی "ای وی ایم” کا طریقہ کار۔ اب اس کی ایک جدید طرز بھی ہے جسے "وی وی پی اے ٹی” یعنی "ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریل” کہتے ہیں۔ اور یہ نظام پاکستان میں رائج کرنے کے لیے حکومتِ وقت کوشاں ہے۔
اس کا طریقہ کار بلکل وہی ہے بس جب ووٹر اپنا ووٹ ڈالے گا تو ساتھ ہی اس کا ایک پرنٹ بھی نکل آئے گا۔ یعنی آپ کو بیلٹ پیپر بھی مل جائے گا اور اسے آپ وہاں موجود بیلٹ باکس میں ڈال دیں گے۔

اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ریکارڈ دو جگہوں پر آجائے گا ایک الیکٹرانک شکل میں مشین میں موجود اور دوسرا بیلٹ باکس میں بیلٹ پیپرز کی صورت۔ جب بھی ضرورت ہو یہ ریکارڈ چیک کیے جا سکتے ہیں۔

ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد صرف ایک بٹن دبانے پر سیکنڈوں میں متعلقہ حلقے کا نتیجہ آپ کے ہاتھ میں ہو گا۔

اس میں درج ہو گا کہ کس کس امیدوار کو کتنے ووٹ حاصل ہوئے۔

اس کے بعد بیلٹ باکس میں موجود بیلٹ پیپرز کی گنتی بھی کی جائے گی لیکن نتیجہ پہلے ہی مرتب کر کے بھجوایا جا چکا ہو گا اور گنتی مکمل ہونے کے بعد نتیجہ بلکل وہی نکلے گا جو الیکٹرانک مشین پہلے ہی دے چکی ہے۔ نتیجہ مختلف ہو ہی نہیں سکتا اور فرق آنے کی صورت میں یہ ظاہر ہے کہ بیلٹ باکس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے کیونکہ مشین کا رزلٹ تو پہلے ہی بھجوایا جا چکا ہے۔

کام مکمل ہونے کے بعد پریزائیڈنگ آفیسر اس مشین کو سیل کر دے گا اور اسے لے جا کر آر او کے حوالے کر دے گا اور اسی طرح بیلٹ باکس بھی آر او کو دے دیے جائیں گے۔
آر او ان ووٹوں کی تصدیق کر لے گا اور کبھی بھی کسی شکایت کے نتیجے میں آر او مشین اور بیلٹ باکس کا نتیجہ نکال کر دکھا دے گا کہ یہ مشین کا رزلٹ ہے اور یہ بیلٹ پیپرز آپ کے سامنے پڑے ہیں، دوبارہ گنتی کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں۔

اس خود کار الیکٹرانک مشین سے الیکشن کے سارے عمل میں تیزی بھی آئے گی اور الیکشن کمیشن کا کام بھی آسان ہو جائے گا۔ غیر ملکی پاکستانیوں کو بھی اس کی وجہ سے ووٹ کا حق ملے گا جو کہ بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ اور جو سب سے بڑا فائدہ اس نظام کا ہو گا وہ یہ کہ اس میں دھاندلی کی گنجائش نِشتہ۔

حکومتِ وقت کو سر توڑ کوشش کر کے اس نظام کو پاکستان میں رائج کرنا چاہیے تاکہ ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں ہم بھی پیچھے نہ رہیں۔

ٹویٹر ہینڈل : @SajjadAli_1

Leave a reply