اہلیت کا دوہرا معیار

اہلیت کا دوہرا معیار
تحریر: ڈاکٹر غلام مصطفی بڈانی
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ معاشرتی نظام میں اعلی عہدوں پر فائز افراد کو عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ قابل اور اہل سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ صرف ایک فریب ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہرا سبب بھی پوشیدہ ہے؟ عام طور پرکسی وزیر،مشیر، ایم این اے، ایم پی اے یا ان کے قریبی ساتھیوں کو زیادہ قابل اور اہل سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اسسٹنٹ کمشنر، ڈی ایس پی، ایس ایچ او اور دیگر اعلیٰ حکام بھی عمدہ اخلاق اور قابلیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ عام لوگوں یا متوسط طبقے میں یہ خوبیاں کیوں کم دکھائی دیتی ہیں؟ کیا یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے یا تعلیم اور تربیت کی کمی کا؟ آئیے اس مسئلے کو تھوڑا سا دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟ ۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے افراد موجود ہیں جو مشکل حالات میں بھی اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور دوسروں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے معاشرت کی اصل بنیاد ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کی خدمات کی قدر کرنی چاہیے اور ان کی کوششوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف عہدے کی وجہ سے کوئی شخص قابلِ تحسین ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص اہم عہدے پر فائز ہو اور پھر بدعنوان اور کرپٹ بھی ہو،کیا وہ قابل رشک کردار کاحامل ہوگا؟ اس دوغلے پن سے ہمیں باہرنکلنا ہوگا.

ہمارے معاشرتی نظام میں ایک ایسی ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جہاں ہر فرد کو اس کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی بنیاد پر سراہا جائے۔ عہدوں اور پوزیشنز کی بنیاد پر لوگوں کا اندازہ لگانا غلط فہمی ہے۔ یہ کہنا کہ صرف حکومتی ملازم ہی قابلِ ہوتے ہیں یہ ایک سطحی اورغلامانہ ذہنیت والی سوچ کا نتیجہ ہے، ہمیں معاشرے میں ہر فرد کو اس کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی بنیاد پر قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔

یہاں تک تو یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو اعلیٰ تعلیم اور تربیت حاصل ہوتی ہےجہاں انہوں نے مختلف مہارتیں سیکھی ہوتی ہیں۔ انہیں مختلف لوگوں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے جو ان کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ یہ سب عوامل انہیں زیادہ قابل اور اہل بنا دیتے ہیں۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے عام لوگ بھی انتہائی قابل اور اہل ہوتے ہیں۔ ان کے پاس بھی متعدد مہارتیں اور معاشرتی علم ہوتاہے اور وہ بھی بہت کچھ سمجھتے اور کرسکتے ہیں مگر انہیں وہ مواقع نہیں دیئے جاتے یا نہیں ملتے جو اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو حاصل ہوتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیم یا مختلف لوگوں سے بات کرنے کا موقع کم ملتا ہے، جو ان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔

علاوہ ازیں معاشرتی تعصب اور امتیاز بھی ایک بڑا مسئلہ ہے عام آدمی کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو مناسب سراہا نہیں جاتااورانہیں حقیرجانا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی ترقی میں بڑی رکاوٹیں آتی ہیں۔

اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہمیں معاشرے میں موجود تعصب اور امتیاز کو ختم کرنے کیلئے افسرشاہی اور پاکستان کی آزادی کے وقت گوروں کے چھوڑے ہوئے غلام ابن غلام جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں ان کی آنکھوں پر چڑھی نفرت اوررعونت کی عینک اتارنا پڑےگی اور کوشش کرنا ہوگی اور ہر فرد کو برابر کے مواقع فراہم ہوں ،تعلیم کے مواقعوں کو بڑھانا ہوگا اور ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع دینا ہوگا۔ اس طرح ہم ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کر سکتے ہیں جہاں ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کے مواقع مل سکیں۔

ہمیں اس سلگتے ہوئے اہم مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک ایسا معاشرہ بنا سکیں جہاں اہلیت کاایک ہی معیار ہو،کیا ہم ایک ایسا معاشرہ نہیں بنا سکتے جہاں ہر فرد کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق پروان چڑھنے کا موقع ملے؟ یہ سوال ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔آخرکب تک یہ دوہرامعیارچلتا رہے گا؟

Leave a reply