امریکی محکمہ انصاف پر مقدمہ کر رہا ہے، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ کمپنی نے ملازمت کے درخواست دہندگان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے جو پناہ گزین ہیں یا پناہ حاصل کرنے والے ہیں جبکہ مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کی حوصلہ شکنی کی اور امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درخواست دینے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا۔

جبکہ ڈی او جی کا کہنا ہے کہ اسپیس ایکس نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف امریکی شہریوں یا گرین کارڈ ہولڈرز کی خدمات حاصل کر سکتا ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے علاوہ ازیں ڈی او جی نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کو بھی رکھا جا سکتا ہےاور اسپیس ایکس کے پاس ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔

تاہم سی ای او ایلون مسک نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنی قانون پر عمل کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی او جی سیاسی وجوہات کی بنا پر اسپیس ایکس کو نشانہ بنا رہا ہے۔ جبکہ مقدمہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اسے کیسے حل کیا جائے گا۔ تاہم اس کیس کا اسپیس ایکس کی خدمات حاصل کرنے کے طریقہ کار اور ٹیلنٹ کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی صلاحیت پر اہم اثر پڑ سکتا ہے۔

خیال رہے کہ قانونی مضمرات کے علاوہ مقدمہ اسپیس ایکس کی تنوع اور شمولیت کے عزم کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتا ہے، اور پھر اسپیس ایکس کے پاس ایک افرادی قوت ہے جو بہت زیادہ سفید فام مرد ہیںاور کمپنی کو ماضی میں تنوع کی کمی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، مقدمہ اسپیس ایکس پر اپنی خدمات حاصل کرنے کے طریقوں میں تبدیلیاں کرنے اور زیادہ جامع کام کی جگہ بنانے کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔

Shares: