سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق اور پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ای سی پی تعصب میں ڈھٹائی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
باغی ٹی وی : سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں شیریں مزاری نے کہا کہ ای سی پی نے ایک بار پھر پی ٹی آئی مخالف تعصب کا مظاہرہ کر دیا ہے-
ECP again reveals its anti-PTI bias! Instead of hearing all parties foreign funding cases simultaneously, it continues to only focus on hearing of PTI case. We know where pressure is coming from but it is unfortunate how brazen ECP has become in its bias! #امپورٹڈ_حکومت_نامنظور
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) April 16, 2022
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے صرف پی ٹی آئی کیس کی سماعت پر توجہ مرکوز ہے، الیکشن کمیشن تمام فریقین کے فارن فنڈنگ کیسز کو بیک وقت سنے۔
شیریں مزاری نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ دباؤ کہاں سے آرہا ہے، ای سی پی تعصب میں ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
قبل ازیں شیریں مزاری نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے فوج کو مدد کیلئے نہیں بلایا تھا۔
میں واضح کردوں اور ریکارڈ پر لےآؤں کہ وزیراعظم نے”سیاسی ڈیڈلاک“ کےخاتمےکیلئےفوج سےمددطلب نہیں کی۔ فوج نےاس وقت کےوزیرِ دفاع پرویزخٹک کے ذریعےملاقات کا وقت مانگا اور 3 تجاویز دیں کہ وزیراعظم مستعفیٰ ہوں، عدمِ اعتماد کا سامناکریں یا نئےانتخابات قبول کریں۔
#امپورٹڈ_حکومت_نامنظور— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) April 15, 2022
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر شیریں مزاری کا کہنا تھاکہ وضاحت کرنا چاہتی ہوں اور ریکارڈ پر لانا چاہتی ہوں کہ عمران خان نے سیاسی ڈیڈ لاک میں مصالحت کے سلسلے میں فوج کو مدد کیلئے نہیں بلایا تھا۔
عمران خان نے فنڈ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کر دی
انہوں نے کہا تھا کہ فوج نے اُس وقت کے وزیر دفاع کے ذریعے میٹنگ طلب کی جس میں ان کی جانب سے تین آپشن سامنے رکھے گئے۔
شیریں مزاری نے سوال کیا تھا کہ عمران خان کئی بار کہہ چکے تھے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے پھر عمران خان استعفے کا آپشن کیوں دیں گے؟ اس بات کی کوئی تُک نہیں بنتی عمران خان نے عدم اعتماد کو صاف مسترد کردیا تھا پھر وہ یہ آپشن سامنے کیوں رکھتے؟ یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے ۔
خیال رہے کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس بتایا تھا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا، ڈیڈ لاک کے دوران وزیراعظم آفس سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا کہ بیچ بچاؤ کی بات کریں، ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی جس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے، مختلف رفقا سے بیٹھ کر تین چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیراعظم کا استعفیٰ، تحریک عدم اعتماد واپس لینا اور وزیراعظم کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن تھا۔