یورپ کا لنڈا بازار. تحریر : محمد آصف شفیق

بہت سے دوسرے پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی یورپ جانے اوردیکھنے کا بہت شوق تھا، میں 2004 میں پاکستان سے بہترمستقبل اور بس چند سال لگا کرواپس پاکستان آنے کیلئے سعودیہ آیا تھا، پہلے چھ ماہ بہت ہی معمولی تنخواہ پرکام کیا اور پھرواپس پاکستان آگیا، چھ ماہ کی چھٹی گزاری اوربالکل آخری دن واپس سعودیہ پہنچا اوراسی پرانی نوکری پرکام شروع کیا اور ساتھ ساتھ اپنے رب سے رزق میں برکت کی دعا بھی کی اور وادی الدواسرنامی چھوٹے سے گاوں سے عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ جانے کیلئے رخت سفرباندھا، پہلا عمرہ بس پرکیا ساتھ میں عبدالرحمان سلیم اورکچھ اورساتھی تھے الحمد للہ والدین کی دعاوں اوراللہ رب العالمین کی رحمت سے اگست 2005 میں ریاض میں ملازمت مل گئی جوکہ 2020 دسمبر تک ریا ض میں جارہی رہی.

2009 میں یورپ جانے کیلئے کوششیں شروع کیں، بہت سے احباب نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق ہمیں معلومات دینی شروع کیں، کسی بھائی کا خیال تھا کہ کوئی ایجنٹ پکڑا جائے اورکام کروایا جائے کسی بھائی نے حوصلہ افزائی کی تو کسی بھائی نے کہا کہ اگر آپ جیسوں کا ویزہ لگ گیا تو ہمارا تو اللہ ہی حافظ ہے، خیرمعلومات لیں تو پتا چلا کہ جس ملک جانا ہو وہاں کا رہائیشی بند ہ کسی وکیل سے ایک دعوت نامہ تحریرکروا کر بھیجے جس میں ان کی اورمیری سب معلومات ہوں، میرے بہنوئی اوربہن وہاں رہائش پزیر ہیں تو دعوت نامے والا معاملہ تو حل ہوگیا اورجو چیزیں چاہیں تھیں انکی ایک لمبی لسٹ تھی، میں نے بھی اپنی کمپنی سے گزارش کی کہ مجھے آئریش ایمبیسی کے نام لیٹر دیں اورگارنٹی لیٹربھی دیں کہ بندہ صرف سیر کی نیت سے جارہا ہے اورتین ماہ کی چھٹیاں گزارکرواپس اپنی نوکری پرلوٹ آئے گا، کمپنی والوں نے بھی کمال شفقت سے تعریفی لیٹر کیساتھ کیساتھ گارنٹی لیٹربھی بنا دیا اور لکھ کر دے دیا کہ ان کیساتھ میرا معاہدہ آئندہ پانچ سال تک کار آمد ہے.

سب دستاوی مکمل کیں تو پتا چلا کہ ٹکٹ پہلے لینی پڑتی ہے پھرسے دوست احباب ہی کام آئے جس جس سے جتنا جتنا مال مل سکا نکلوا لیا گیا اور ٹکٹ خریداری والا معاملہ بھی الحمد للہ مکمل ہوا ترکش ائرلائن کی ٹکٹ خریدی جوکہ ریاض سے استنبول اوراستنبول سے ڈبلن کیلئے تھی اوراسی طرح واپسی ہونی تھی، میں بھی ٹائی وائی لگا کرسارے کاغزات لیکر آئرلینڈ ایمبیسی وقت سے دو گھنٹے پہلے پہنچ گیا، جب جاکرسکیورٹی والوں سے پوچھا تو پتا چلا کہ صبح 9:30 بجے سفارتخانہ کھلے گا اورآپ سے پہلے بھی چھ سات افراد موجود ہیں، طرح طرح کی فکریں لاحق ہوئی کبھی انگریزی میں ہونے والے انٹرویو کی فکر، کبھی ویزہ نہ ملنے کی فکر دامن گیرہوئی ،اللہ اللہ کرکے اپنی باری آئی تو سامنے اپنے ایک پاکستانی بھائی بیٹھے درخواستیں وصول کررہے تھے نا م تھا ملک قدیر صاحب ہنستے مسکراتے تعارف ہوا سب نے پیپر دیکھے اورامید دلائی کہ ان شاء اللہ ویزہ لگ جائے گا، قدیر ملک بھائی پاکستان پنڈ دادنخان کے رہنے والے ہیں، بہت ہی ملنسار نیک سیرت اوراچھا مزاج رکھنے والے بھائی ہیں ان سے 2009 سے بنا تعلق ان کی ریٹائرمنٹ 2020 تک قائم رہا ہرعید خوشی غمی میں ایک دوسرے کا حال احوال لینا اورغیر رسمی ملاقاتیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ملک صاحب جہاں بھی ہوں اللہ رب العالمین انہیں بہترین صحت سے نوازیں.

15 دن کےطویل انتظار کے بعد دوبارہ پاسپورٹ لینے آئیریش ایمبیسی آنا ہوا، ملک صاحب نے داخل ہوتے ہی ویزہ مل جانے کی خوش خبری سنائی اس طرح پہلی دفعہ کسی بھی دوسرے ملک کیلئے سفر کیا، ریاض سے ترکی استنول پہنچے استنبول کا ہوائی اڈہ انتہائی مصروف اوربہت بڑی ڈیوٹی فری مارکیٹ ہے جہاں دنیا جہان کی چیزیں خرید سکتے ہیں 4 گھنٹےانتظارکے بعد اگلی فلائٹ پکڑی اوراس طرح ڈبلن ائرپورٹ پہنچے، دورجہاز سے اتاردیا گیا اوراشارے سے کہا کہ وہ سامنے چلے جائیں، امیگریشن مکمل ہوئی بہن بہنوئی لینے آئے ہوئے تھے ڈبلن سے براستہ کارہم لونگ فورڈ پہنچے اور15 دن قیام کیا بہت عزیز رشتہ دارو ہاں مقیم ہیں پورے 15 دن دعوتیں ہوتی رہیں اورمختلف شہر اورمارکیٹیں دیکھنے کا موقع ملا ایسے ہی ایک بوٹ سیل ( جس میں لوگ اپنی استعمال شدہ چیزیں فروخت کرتے ہیں جاناہو ا) اور سیلفی لیکر دوستوں سے شئر کردی جس پر جواب آیا چوہدری صاحب یورپ جا کے وی لنڈا بزار لبھ لیا اے ( کہ یورپ جا کر بھی آپ نے لنڈابازارڈھونڈ لیا ) یہ ہی بات آج یاد آئی توسوچا کچھ اسی پرتحریرکرلیا جائے، کچھ پرانی یادیں تازہ کرلی جائیں، اپنے پڑھنے والوں کیلئے بھی کچھ لکھ دیا جائے باقی کا احوال بھی ان شاء اللہ جلد تحریرکیا جائے گا.

@mmasief

Comments are closed.