فیصل واوڈا تیری قسمت کیوں بلند:اپوزیشن کو اعتراض ہوسکتا ہے لیکن مجھے نہیں:کیوں؟
اور پھر جیسے ہی سینیٹ کاٹکٹ فیصل واؤڈا کو دینے کا "اچانک بیٹھے بٹھائے انتقال ” کی طرح اعلان ہوا تو درودیوارہل کر رہ گئے بلکہ یوں کہیے کہ کانپ اٹھے بلکہ یہ کہنامناسب ہوگا کہ زلزلے کےجھٹکے اس کے فوری بعد محسوس ہوئے کہ بقول فردوس عاشق "زلزلہ تبدیلی کا عمل ہے اور زمین بھی اس تبدیلی سے خوش ہے” یا شاید جملہ یہ بہتر ہوکہ دل دہل کر رہ گئےمگر ان سب سے پَرے مجھے تو یہ کہنا زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے کہ قیصرو کسری کےکنگروں کی طرح لوگ بھی الٹ پڑے…
یہاں تو سینیٹ کے ٹکٹ مانگنے کے لیے نوٹوں کی تھتھیاں "شاہ” سجاتے ہیں اور قانون گنتا ہے مگر ہمارے فیصل بھائی نے جب سے چینی سفارت خانے کو بچانےکی خاطر "محفوظ در گولئ دشمناں لباس زیبِ تن فرما کر پولیس اور رینجرز کی بروقت مدد کو پہنچنے کا قصد کیا تھا اور خاکسار کے حلقے میں بندے کو ساتھ لیے بنا مروی کے والد کے ساتھ پریس کانفرنس میں "نامرد” بنانےکا قانون لانے کا فیصلہ کیا تب سے سینیٹ کا ٹکٹ ہاتھ باندھے قبلہ کے سامنے کھڑا,تھا کہ "مجھے قبول کرو اور کوئے سینیٹ لے چلو آؤ کہ وہاں چل کر "قانون نامرد بنائیں یہاں والے "مرد” تو سن ہی نہیں رہے البتہ وہاں کچھ نامرد "ایزی پیسہ” سے مرد بنے ہیں ان ہی سے لقمہ تر کرتے ہیں…
بہرحال کیا ہی حسین منظر ہوگا کہ رونقیں سینیٹ کی جو پہلے ہی سے مشاہد اللہ صاحب جیسے”نابغہ بے روزگار” بڑھانے پر مائل تھے اب ان میں اضافہ کرنے نکل پڑے ہیں ہمارے اپنے بلدیہ والے فیصل بھائی جو سینیٹ کا ٹکٹ خان صاحب سے ایسے مانگ رہے ہیں جیسے ادھار واپس مانگ رہے ہوں جبکہ جہانگیر ترین صاحب کوسیاسی طور پر "آق” کردینے کے بعد سے میرے دیس کے گالہ پہ یہی لکھا ہے "ادھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں”…
ویسے تو فیصل بھائی سینیٹ کا ٹکٹ ملنے کے باوجود خان صاحب سے خوش نہیں ہیں فرقہ عمران کے اسماعیلی نے زیدیوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے انکشاف کیا ہے جو ان کے مطابق "مولوی "کے دعوے سے کم نہیں کہ فیصل بھائی چونکہ شروع سے ٹکٹس جمع کرنے کے شوقین الصفت گلّے باز ہیں اسی لیے انہوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں , کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور گلگت بلتستان کی اسمبلی کے سوا, گرین لائن کا "بس ” چلنے سے پہلے ہی ٹکٹ مانگ رکھا تھا تاکہ انہیں "ایل بم” میں یادگاری ٹکٹس کے ساتھ لگا سکیں جیسے کہ بمبینو سینما سے لیا گیا پہلی فلم کا ٹکٹ "انسان اور گدھا” جس میں رنگیلا صاحب نے تاریخ ساز کردار نبھایا,
اسکالہ کا ٹکٹ جس پر آئینہ مدتوں لگی رہی لیکن انہیں دیکھنے کی فرصت نہیں, جی سیون بس روُٹ کا ٹکٹ جو ان سے کیپٹن جمیل نے چھین کر ان سے بھی زیادہ زیادہ بڑے زباں دراز عطا اللہ کو دے دیا ہے کہ گویا چیلنج ہو کہ "واپس لے کر دکھاؤ” حالانکہ دینے کے بعد کوئی بھی واپس نہیں لے سکتا… میری حیرانگی کی وجہ سینیٹ کے ٹکٹ کی فیصل بھائی سے نئی نئی شناسائی نہیں بلکہ رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے کس بطخ نے قوئیں قوئیں کی کہ انہیں سینیٹ کی سوجھی؟
اگر تو یقین ہے کہ شادی چھپانے اور شہریت گھٹانے کے جاری مقدمات سے قد اور حد میں کوئی فرق نہیں پڑے گا تو پھر قومی اسمبلی میں کیا برائی ہے؟ اور کیا گارنٹی ہے کہ آپ کی 900 ووٹوں سے جیتی ہوئی نشست پی ٹی آئی دوبارہ حاصل کر لے گی؟ مولوی کی آس, حنید کی پیاس اور اشرف کےاحساس کا اس وقت کیا عالم ہوگا یہ تو تعزیتی دورے کے دوران ہمدردی کے دو بول بولتے ہی ان کے پھٹ پڑنے کی رفتار پر منحصر ہے…
کسی نے اقرا کہہ کر ابھی سر جھکایا ہی تھا اور کسی نے تحریک میں اپنے "اشرف” ہونے کا عاجزانہ دم بھر رکھا تھا جبکہ ایک مولوی تین برس سے مسجد کے بجائے کے پی ٹی اور گورنر یاؤس میں "نر” بنا بیٹھا تھا کہ فیصل بھائی نے اس کے خرخرے میں سے بھی آخری آواز نہیں نکلنے دی اور اس سے سینیٹ کے درودیوار دیکھنے کی بینائی چھین لی گئی,
ان معصوموں کو دیکھ کر ان بچوں کی قبریں یاد آجاتی ہیں کہ جن کے کتبوں پر اکثر یہی لکھا ہوتا ہے کہ "پھول تو دو دن میں بہار جانفزاں دکھلا گئے… حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مرجھا گئے” میرا "مردانہ مشورہ” تو یہی ہے کہ فیصل بھائی قومی اسمبلی میں ہی وقت گذاریں کیونکہ ان کے آنے کے بعد تین فیصل ہو جائیں گے متوقع فیصل سبزواری, موجود فیصل جاوید خان اور مکمل متوقع ہمارے فیصل بھائی ..
ایک پرواز ایم کیوایم سے اڑان بھرنے کو تیار ہے دوسری پی ٹی آئی کو اڑان بھروانے کے لیے اکسا رہی ہے اور جو لینڈ کر چکی وہ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے یہ اندازے لگانے میں مصروف ہے کہ ان میں سے پی ایف فیصل سے کون اڑا تھا؟
لوگ بلاوجہ خان صاحب کے پیچھے پڑے رہتےہیں کہ دیکھو کیسا نکلا؟ یہ بھی ریوڑیاں اپنے اپنوں کو بانٹ رہا ہے حالانکہ صورت حال اس کے برعکس ہے ان کے گھرکی "بنی” دیوار سے آواز آرہی ہے, جمے رہو, رحم کرو اور آجاؤ خوش خبریوں… اب کوئی زبردسی یا ضد کرے تو تم ہی بولو کہ عمران کیا کرے؟!!!!