فیصلہ پارٹ نمبر 1 تحریر سکندر علی 

0
30

Twitter @CikandarAli

یہ بہار کے انتہائی خوب صورت موسم میں ایک اتوار کی صبح تھی ۔ ایک نوجوان تا جر جارج بینڈ مان دریا کے کنارے

کنارے بنے چھوٹے اور خستہ حال گھروں، جو اپنی بلندی اور رنگ سے ایک دوسرے سے مختلف معلوم نہیں ہوتے ہیں، کی

طویل قطار میں سے ایک گھر کی پہلی منزل میں اپنے ذاتی کمرے میں بیٹا ہوا تھا۔ وہ ابھی اپنے ایک دیرینہ دوست کو، جو

اب دیار غیر میں رہتا تھا، خط لکھ کر فارغ ہوا تھا اور پھر اس نے خط کو سختی کے ساتھ سوچوں میں کھوئے ہوئے انداز میں

الناس میں ڈالا اور اب لکھنے کی میز پر کہنیاں ٹکائے کھڑکی سے با مردم با پل اور پر لے گٹار سے پر آنکھوں کو بھی معلوم

ہونے والی ہریالی والی پہاڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔

وہ اپنے دوست کے بارے میں سوچ رہاتھا جوحقیقت میں چند سال پہلے روس بھاگ گیا تھا۔ یہاں دو اپنے حالات

سے غیرمطمئن رہتا تھا۔ اب وہ سینٹ پیٹرز برگ میں اپنا کاروبار چلارہا تھا جو شروع میں تو خوب پکا لیکن اب طویل ع سے

سے پہلی حالت میں تھا اور جس کی شکایت وہ سلسل بے قاعدگی کا شکار ہو جانے والے اپنے یہاں کے دوروں کے دوران

کیا کرتا تھا۔ وہ دیار غیر میں بے کارهای خود کو تک رہا تھا۔ اس کی بڑی داڑھی اس چہرے کو پوری طرح نہیں جب پانی کی ہے

جارج چین سے جانا تھا اور اس کی جلد کی رنگت اتنی زرد ہو چکی تھی کہ اس کے جسم میں پلنے والی کی باری کا پت دی۔

جیسا کہ اس نے خود بتایا اس کا وہاں مقیم اپنے ہم وطنوں سے کوئی باقاعدہ رابط نہیں تھا، نہ ہی مقائی روی کنبوں سے اس

کے تعلقات بہتر تھے اور یوں اس نے مستقل کنوار پن پر قناعت کر رکھی تھی۔

اپنے ان کو آخر کیا لکھا جاسکتا ہے جوخو بدحالی کا کار ہوں۔ جس کی حالت پرافسوس تو کیا جا سکتا تھا لیکن اس کی دو کرتا

ممکن نہیں تھا۔ کیا اسے نصیحت کی جانی چاہیے کہ وہ واپس آجائے ، یہاں اپنی زندگی کی شروعات کرے، تمام پرانے

دوستانہ تعلقات کی تجدید کرے، یہاں اس کے لیے رکاوٹ بھی کوئی نہیں ہوگی اور پھر موی طور پر اپنے دوستوں کی اعانت پر

بھروسہ رکھے لیکن بیتو اس سے یہ کہنے کے مترادف ہوگا اور یہ کہ یہ بات بھی نرمی سے کہی جائے اتنی ہی تکلیف دہ ہوتی

تھی کہ اس کی بھی کوششیں لے کر گئی تھیں ، یہ کہ اسے اب یہ سب کچھ چھوڑ و یا اپنے ملک لوٹ آنا اور لوگوں کی نظروں کا

سامنا کرنا چاہے جواسے سب کچھ نا کر آنے والے کے طور پر دیکھیں گی اور یہ کہ اصل مجھ بوجھ تو اس کے دوستوں کی کو

حامل ہے جب کہ وہ خود ایک بڑا بچہ ہی ہے جسے وہی کچھ کرنا چاہیے جو اس کے کامیاب اور گھر بار والے دوست اس کے

لیے تجویز کریں۔

پھر بھی کیا یقینی تھا کہ جس مقصد کے لیے اسے یہ اذیت پہنچائی جائے گی، وہ پورا ہو سکے گا۔ شاید ممکن نہیں تھا کہ

اسے واپس وطن لایا جائے۔ اس نے خود سے کہا کہ اپنے ملک کے تجارتی معاملات سے اب اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

یوں وہ اس اجنبی سرزمین پر دوستوں کے صلاح مشورے سے عاجز اور ان سے علیحدہ رہ کر ایک اجنبی کی زندگی گزارے

گا لیکن اگر ایسا ہو کہ وہ دوستوں کا مشورہ بھی قبول کرے اور پھر یہاں جم کر کوئی کام بھی نہ کر پائے کسی کی دشمنی کی وجہ سے

نہیں بلکہ حالات ہی اسے اس نے پر لے آئیں تو دوستوں کے ساتھ بیان کے بغیر وہ نہیں چل پائے گا، بکی محسوس کرے گا

اور یہ کہنے جوگا بھی نہیں رہے گا کہ اس کے کچھ دوست ہیں اور اس کا اپنا بھی کوئی وطن ہے ۔ تو کیا ہی بہتر نہیں ہے کہ جیسے بھی

حالات میں وہ غیر ملک میں رہ رہا ہے، ویسے ہی رہے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر کوئی بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا

کہ یہاں آنے کے بعد وہ ایک کامیاب زندگی گزارنے لگے گا۔

ان وجوہات کے تحت اگر کوئی اس سے خط و کتابت جاری رکھے تو وہ اسے ایسی خبریں نہیں بتائے گا جو دور دراز رہنے

والے دوستوں کو بے تکلفان سمجھی جاتی ہیں۔ پچھلی بار وہ تین سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اس نے بیعذر پیش کیا تھا کہ روس کے

سیاسی حالات دگرگوں تھے جس کی وجہ سے اس جیسے معمولی تا جر کو بھی تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی ملک سے باہر جانے کی

مہلت حاصل نہیں تھی، جب کہ حقیقت اس دوران میں لاکھوں روی سہولت کے ساتھ دوسرے ملکوں میں گھوم پھر رہے تھے۔

ان تین برسوں میں جارج کی اپنی زندگی بہت کی تبدیلیوں کی زد میں آئی تھی۔ دو سال پہلے اس کی ماں فوت ہوگئی۔

اس کے بعد سے وہ اپنے باپ کے ساتھ کر گھر داری کی ذمہ داریاں پوری کر رہا تھا۔ اس کے دوست کو بھی بلاشبہان

سانحے کے اطلاع دی گئی تھی لیکن اس نے جواب میں ایسے روکھے انداز میں اظہار ہمدردی کیا تھا جس سے پینتیجہ نکالا جاسکتا

تھا کہ اس سانحے سے پیدا ہونے والا دکھ دور دراز کسی ملک میں محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ اسی سانحے کے بعد سے جاری زیاده

پختہ ارادے کے ساتھ اپنے کاروباری معاملات اور دیگر امور میں پہلے سے زیادہ مصروف ہو گیا تھا۔

ماں زند تھی تو کاروباری معاملات میں وہ شاید اس لیے بھی زیادہ ذوق و شوق سے کام نہیں کر سکا کہ اس کا باپ اپنی

من مانی کرنے کا شائق تھا۔ شاید اپنی بیوی کی وفات کے بعد اس کے باپ کا مزاج گم جارحانہ ہو گیا تھا۔ حالاں کہ وہ

کاروباری معاملات میں اب بھی دخیل تھا۔

جاری ہے 

Leave a reply