سپریم کورٹ میں زمین قبضے کے الزام میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف ہیومن رائٹس کیس کی سماعت ہوئی،
عدالت نے درخواست گزار معیز احمد خان کے وکیل کو وکالت نامہ جمع کرانے کیلئے وقت دیدیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے درخواست میں سنگین الزامات عائد کیے ہیں،کیا کیس میں خود پیش ہوں گے یا وکیل کے ذریعے،درخواست گزار نے کہا کہ میرے وکیل نے وکالت نامہ جمع نہیں کرایا، ہمیں رات کو ہی کال آئی تھی، وکیل درخواست گزارنے کہا کہ کیس میں التوا دیا جائے،
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے کیس کو ملتوی بھی نہیں کر سکتے،آپ وکالت نامہ جمع کرائیں، پھر کیس سنیں گے، وکیل درخواست گزار نے کہا کہ بارہ مئی 2017 کو معیز خان اور انکے اہلخانہ کو اغواء کیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس حوالے سے عدالت کیا کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کوئی نوٹس لیا تھا؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے براہ راست تو کوئی کارروائی نہیں کی تھی،وزارت دفاع انکوائری کرنے کی مجاز ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ زاہدہ نامی کسی خاتون کی درخواست بھی زیر التواء ہے،وکیل نے کہا کہ زاہدہ کا انتقال ہو چکا ہے، درخواست کی کاپی دیں تو جائزہ لے لیتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جائزہ لے لیں تاریخ نہیں دے سکتے، چائے کے وقفے کے بعد سماعت کرینگے،
سپریم کورٹ،فیض حمید کے خلاف ہیومن رائٹس کیس کی وقفے کے بعد سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے وہ آپ کو بتا رہے ہیں، برطانیہ کی شہری زاہدہ اسلم نے 2017 میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 تین کا کیس دائر کیا،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں نومبر 2018 میں فریقین کو بلا کر کیس چلایا،کیا چیف جسٹس پاکستان چیمبر میں اکیلے سنگل جج کے طور پر فریقین کو طلب کر کے کیس چلا سکتا ہے؟ کیس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود ہی ایف آئی اے، پولیس اور سی ٹی ڈی وغیرہ کو نوٹس کیا، اسی نوعیت کی درخواست زاہدہ اسلم نے چیف جسٹس گلزار کے سامنے بھی رکھی،سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں آرٹیکل 184 تین کی درخواستیں دائر کی گئیں،جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائر کی گئی ہے،
کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا،جسٹس اطہرمن اللہ
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے،کیس کے حقائق میں نا جائیں، میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ہیومن رائٹس سیل غیر قانونی ہے،ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں ہے،ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں، کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پر نوٹس نہیں لے سکتا،جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ حفیظ الرحمان صاحب زاہدہ اسلم اور آپکی درخواست کیا آرٹیکل 184/3 میں آتے ہیں،وکیل نے کہا کہ زاہدہ اسلم کی درخواست 184/3 میں نہیں آتی کیونکہ وہ معاملہ سول عدالت میں زیر سماعت تھا،ہماری درخواست آرٹیکل 184/3 میں آتی ہے کیونکہ یہ معاملہ کسی اور فورم پر نہیں گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسینے کہا کہ چیمبر میں بیٹھا جج سپریم کورٹ نہیں ہوتا عدالت میں بیٹھے ججز سپریم کورٹ ہیں،چیمبر میں بیٹھ کر سپریم کورٹ کی کاروائی نہیں چلائی جاسکتی،چیمبر میں صرف چیمبر اپیلیں سنی جاسکتی ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینئر وکلا سے پوچھ لیتے ہیں کہ کیا چیمبر میں بیٹھ کر جج کسی کیس کو سن سکتا ہے،وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیمبر میں آرٹیکل 184/3 کے مقدمات نہیں سنے جاسکتے،چیمبر میں مخصوص نوعیت کی چند درخواستیں سنی جاسکتی ہیں،سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سلمان بٹ صاحب آپ نے بطور اٹارنی جنرل ہیومن رائٹس سیل کیخلاف بات کیوں نہیں کی،ہیومن رائٹس سیل حکومت کو غیر قانونی نوٹس بھجواتا رہا ہے،کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ ہیومن رائٹس سیل کیخلاف عدالت میں سوال اٹھاتی،2010 سے ہیومن رائٹس سیل غلط طریقے سے چل رہا ہے کسی نے آواز نہیں اٹھائی،
زمین پر قبضے کا الزام،سپریم کورٹ نے فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹا دی، سپریم کورٹ نے متعلقہ فورم سے رجوع کرنےکا حکم دے دیا،سپریم کورٹ نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر فریقین کیخلاف دوسرے متعلقہ فورمز موجود ہیں،سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواست نمٹاتی ہے، درخواست گزار متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتا ہے،متعلقہ فورم غیر موجود فریقین کے بنیادی حقوق کا خیال رکھے،درخواست گزار نے آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار پر سنگین الزامات عائد کیے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق درخواست گزار وزارت دفاع سے سابق عہدیدار کیخلاف رجوع کر سکتے ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق ریٹائرڈ فوجی افسران کا کورٹ مارشل بھی ہو سکتا ہے، آرٹیکل 184 تین کا استعمال اس طریقے سے نہیں ہونا چاہئے جس سے غیر موجود افراد کے بنیادی حقوق متاثر ہوں،
فیض حمید کے حکم پر گھر اور آفس پر ریڈ کر کے قیمتی سامان ،سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کیا گیا،درخواست
راولپنڈی کے شہری معیز احمد نے سپریم کورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کیخلاف درخواست دائر کردی،جس میں کہا گیا کہ مجھے اور فیملی ارکان کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا، وفاقی حکومت کو ذمہ داران فریقین کیخلاف کاروائی کا حکم دیا جائے، 12 مئی 2017 کو جنرل فیض حمید کے حکم پر ان کے گھر اور آفس پر ریڈ کیا گیا،اس غیر قانونی ریڈ میں گھر کا قیمتی سامان اور سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کر لیا گیا،میرے خلاف غیر قانونی کارروائی کا مقصد ٹاپ سٹی ون کا کنٹرول حاصل کرنا تھا اور اس ریڈ کے بعد مجھے اور میرے پانچ ساتھیوں کو گرفتار کر کے حبس بے جا میں رکھا گیا، وفاقی حکومت جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، ان کے بھائی نجف حمید پٹواری اور دیگر ساتھیوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے
فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی واپس لینے کی درخواست دائر
فیض حمید جو اب سابق ڈی جی آئی ایس آئی ہیں نے ملک کو ناقابِلِ تَلافی نقصان پہنچایا
،میں ابھی فیض حمید کے صرف پاکستانی اثاثوں کی بات کر رہا ہوں
برج فیڈریشن آف ایشیا اینڈ مڈل ایسٹ چیمپئن شپ مہمان کھلاڑی حویلی ریسٹورنٹ پہنچ گئے
کھیل سے امن کا پیغام دینے آئے ہیں.بھارتی ٹیم کے کپتان کی پریس کانفرنس
وادی طائف کی مسجد جو حضور اقدس نے خود بنائی، مسجد کے ساتھ کن اصحاب کی قبریں ہیں ؟