جھوٹی خبروں والے مانگیں           مادر پدر آزادی ۔۔۔۔ تحریر: آصف گوہر

0
67

 

         "خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعﺚ فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وه باز آجائیں.”

سورة الروم 41

آزادی اظہار رائے سے مراد انسان کو اپنی بات کہنے بیان کرنے اور لکھنے کی  خودمختاری حاصل ہو۔

مہذب معاشروں میں صحافتی اصولوں کا معیار غیرجانبداری تحقیق شدہ مکمل سچ لوگوں کے سامنے بیان کرنا ہے ۔

پرنٹ میڈیا کے لکھنے والوں کے لئے اصولوں ضوابط ہوتے تھے اورادارتی بورڈز کی نگرانی کی وجہ سے حمید نظامی نذیر ناجی جمیل الدین عالی حسن نثار انور قدوائی جیسے بڑے بڑے نامور کالم نگار اور تجربہ کار سامنے آئے جن کی غیر جانبداری وضع داری کا زمانہ معترف ہے

مگر ہمارے ہاں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو جب کام کرنے کی اجازت دی گئ تو صحافت نے کاروبار کا درجہ حاصل کر لیا اور ناتجربہ کار نئے نئے لوگ چینلوں پر خبریں پڑھتے پڑھتے ٹاک شوز کے میزبان تجزیہ کار اور اینکرز بن گئے۔ بات یہاں تک ہی نہ رکی نوخیز صحافی سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن گئے واٹس ایپ پر ہدایت لینے لگے انٹرویو میں پلانٹڈ سوال پوچھے جانے لگے کئ صحافیوں نے تو بزنس آئیکون کے لئے کرائے پر کالم لکھنے کا کام بھی شروع کردیا لاہور کی سڑکوں پر پرانی موٹرسائیکل کا پلگ صاف کرتے نظر آنے والے صحافیوں نے دن دگنی ترقی کی اور فارم ہاوسز کے مالک بن گئے سیاسی جماعتوں نے اپنے ایجنڈے اور بیانیہ کےفروغ کے لئے صحافیوں کا استعمال شروع کیا اور حکومت میں آنے کے بعد من پسند صحافیوں کو پیمرا ہارٹیکلچر جیسے اداروں کا چئیرمین لگایا گیا اور سرکاری عہدوں سے نوازا گیا قلم بکنے لگے ایزی لوڈ صحافیوں کی ایک فوج طفر موج مارکیٹ میں آگئ اور یوں صحافت جیسا مقدس پیشہ تجارت کا درجہ اختیار کر گیا۔ سلسلہ یہی تک نہیں رکا شہرت اور دولت کی ہوس نے پیشہ ور بدیانتوں کا حوصلہ بڑھایا اب یہ ملک اور ملکی اداروں کے خلاف لکھنا اور بولنا شروع ہوگئے سیکورٹی اداروں کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں کو ملک دشمن قوتوں نے ہائیر کیا اور ان کے قلم حساس اداروں کے خلاف استعمال ہونے لگے ۔جب ریاستی اداروں نے ان ملک دشمن عناصر کے خلاف تحقیقات کے کے لئے اقدامات کئے تو آزادی اظہار رائے پر حملے کا بہانہ بنا کر بیرون ممالک پناہ لینا شروع کردیا اور گرفتاریوں کو جبری گم شدگی کا نام دیا گیا۔                  

یہ مخصوص نام نہاد صحافی ہمیشہ آپ کو اچھے کام کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے مذہبی اخلاقی اقدار پر تنقید ملکی مفاد پر تنقید اور جھوٹی خبریں رپورٹیں نشر کرنا انکا وطیرہ ہے اپنے آپ کو بائیں بازو والے لبرلز کہلانا ان کا مشغلہ ہے حالانکہ لبرلز آزاد خیال دوسروں کی رائے کا احترام اور برداشت کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کہ لبرلز اپنی رائے کے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اسی لئے انہیں خونی لبرلز کہا جاتا ہے۔

حکومت نے نظام تعلیم میں طبقاتی تفرئق کو ختم کرنے کے لیے یکساں قومی نصاب متعارف کروایا اس مخصوص اور نومولود صحافتی ٹولے نے نصاب کا جائزہ لئے بغیر ہی صرف اسی بات پر مضامین لکھ مارے کہ پرائمری کی کتب  کے سرورق پر بچی زمین پر کیوں بیٹھی ہے حجاب کیوں لیا ہے بچی نے پورے کپڑے کیوں پہنے ہیں۔اور یوں انہوں نے ایک ایجنڈے کے تحت ایک اچھا کام میں روڑے اٹکانے کی ناکام کوشش کی۔

موجودہ حکومت کے تین سالوں میں جھوٹی خبریں اور رپورٹیں نشر کرنے والوں کی تعداد میں بےپناہ اضافہ ہوا کچھ تو اداروں اور ملک دشمنی کے اپنے لا علاج مرض کے سبب چینلز سے بھی نکالے گئے اب ان میں سے اکثر بے روزگار ہو کر یوٹیوب پر بونگیاں مار رہے ہیں۔

یہ نام نہاد صحافی خبر دینے اور رپورٹنگ کی بجائے خود پارٹی بن جاتے ہیں کئ تو مولانا فضل الرحمن کی پرائیویٹ فوج کی یونیفارم پہن کر انقلاب کی رہ تکتے تکتے مایوس ہوکر فاتحہ خوانی بھی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

جھوٹی خبر دینے والوں کا محاسبہ کرنے کے لیے ہر ملک میں قوانین موجود ہیں صحافیوں کو بھاری جرمانے برطانیہ جیسے آزاد معاشرے میں بھی کئے جاتے ہیں۔ 

موجودہ حکومت نے جھوٹی خبریں دینے والے صحافیوں کا محاسبہ کرنے اور میڈیا کے کیمرہ مینوں بیٹ رپورٹرز اور دیگر ورکرز کو کئ کئ ماہ تنخواہیں ادا نہ کرنے والے میڈیا مالکان کے خلاف قانون سازی کرنے کی کوشش کی تو نام نہاد نامور صحافی جن کو منہ مانگی قیمت ملتی ہے وہ جھوٹی خبروں اور میڈیا ورکرز کے حق میں بننے والے پاکستان میڈیا اتھارٹی کے خلاف پھٹ پڑے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں جھوٹ بولنے کی مادر پدر آزادی دی جائے تاکہ یہ معاشرے میں اپنی  جھوٹی خبروں اور رپورٹنگ کے ذریعے فساد مچاتے رہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہ ہو۔

حکومت وقت سے استدعا ہے کہ اگر اب اس مافیا کو لگام ڈالنے کے ارادہ کر ہی لیا ہے تو اپوزیشن میں بیٹھے ان کے خیرخواہوں کی تنقید کو خاطر میں نہ لایا جائے

اور اس کام کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔           

@EducarePak 

Leave a reply