فری فال کی تیز ترین رفتار کا قرآن میں بیان تحریر: بقلم سلطان سکندر!!!

Terminal Velocity in Quran
فری فال کی تیز ترین رفتار کا قرآن میں بیان

فری فالنگ کے دوران، گرنے کے کچھ ہی سیکنڈز بعد ٹرمینل ویلاسٹی شروع ہوجاتی ہے۔

"ٹرمینل ویلاسٹی ہوا کی مزاحمت پہ منحصر ہوتی ہے, مثال کے طور پر ایک سکائی ڈائیور جو پیٹ کے بل فری فالنگ کرتا ہے یعنی اسکا منہ زمین کی طرف ہوتا ہے، اسکی ٹرمینل سپیڈ 195 km/h ہوتی ہے۔ یہ رفتار آخری حد کے قریب ترین ہوتی ہے، جیسے جیسے ٹرمینل ویلاسٹی بڑھتی جاتی ہے جسم پہ کام کرنے والی قوتیں جسم کے توازن کو برقرار رکھتی ہیں۔
مثال کے طور پر، فری فالنگ کے 3 سیکنڈر بعد ہی ٹرمینل ویلاسٹی 50 فیصد تک پہنچ جاتی ہے، 8 سیکنڈز بعد ٹرمینل ویلاسٹی 90 فیصد تک پہنچ جاتی ہے اور 15 سیکنڈز بعد یہ 99 فیصد تک پہنچ جاتی ہے اور اسی طرح بڑھتی جاتی ہے۔”
Reference:- Wikipedia, Terminal Velocity, 2019.


سکائی ڈائیور بہت ہی تیز ٹرمینل ویلاسٹی کے ساتھ فری فالنگ کرتا ہے جبکہ کچھ پرندے آسانی سے کسی بھی سکائی ڈائیور سے تیز ٹرمینل ویلاسٹی سے اڑتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں سب سے تیز پرندہ "پیریگن فیلکن” ہے جسکی رفتار 390 km/h ہے جبکہ ایک سکائی ڈائیور کی زیادہ سے زیادہ رفتار 195 km/h ہوتی ہے۔
دنیا کے تیز ترین پرندوں کے نام اور انکی رفتار مندرجہ ذیل(کمنٹ میں) بیان کی گئی ہے۔

پیریگن فیلکن 390 km/h کی ٹرمینل ویلاسٹی سے پرواز کرتا ہے جبکہ دوسرا پرندہ جسکا نام گولڈن ایگل ہے وہ 240 سے 320 km/h کی ٹرمینل ویلاسٹی سے پرواز کرتا ہے۔ اسی طرح یہ دو پرندے آسانی سے کسی بھی سکائی ڈائیور کو فری فالنگ کے دوران جا پکڑ سکتے ہیں۔ اور تو اور یہ پرندے ریپٹرز بھی ہیں، (ریپٹرز ان پرندوں کو کہا جاتا ہے جو گوشت والی جنس کا شکار کرتے اور انکا گوشت کھاتے ہیں)۔ یہ تحقیق حال ہی میں کی گئی ہے جبکہ 1400 سال پہلے قرآن میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے،
Quran 22:31
حُنَفَآءَ لِلّـٰهِ غَيْـرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ ۚ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْـرُ اَوْ تَهْوِىْ بِهِ الرِّيْحُ فِىْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ (الحج 31)

"خاص اللہ کے ہو کر رہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے۔”

"پرندے اس انسان کو اچک(پکڑ) لیتے ہیں” یہ پرندے انسانوں پہ حملہ کر سکتے ہیں یعنی یہ گوشت کھانے والے ریپٹرز ہیں، لیکن انسان کو ہوا میں ہی پکڑنے کیلئے انہیں ایک سکائی ڈائیور سے تیز اڑان بھرنی پڑے گی اور آج ہم جانتے ہیں کہ ریپٹرز پرندے ایک سکائی ڈائیور سے تیز ہوا میں اڑان رکھتے ہیں۔

لیکن 1400 سال پہلے ایک غیر معمولی شخص کیسے جان سکتا ہے کہ ریپٹرز (گوشت کھانے والے پرندے) ایک سکائی ڈائیور سے اتنی تیز اڑان رکھتے ہیں کہ وہ انسان کو ہوا میں ہی پکڑ کر شکار کر سکتے ہیں۔؟؟؟

بقلم سلطان سکندر!!!

Comments are closed.