فیٹف کا سیاسی فیصلہ اور پاکستان پر اسکے اثرات تحریر ہارون خان جدون

0
45

 فرانس کے دارلحکومت پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس بار صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تركی کو بھی گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے تركی اور پاکستان اس وقت عالمی سیاست میں جس مقام اور مدار پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رے ہیں وہ مغربی بلاک کو پسند نہیں 

اسلئے پاکستان کی طرح تركی کی معیشت بھی شدید مشکلات کا شکار ہے اس فیصلے پر بھارت سمیت دنیا کے کئی ملكوں میں خوشی کے شادیانے بج اٹھنا فطری ہے مگر پاکستان نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے پچھلی بار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ سوال اٹھایا تھا کے اب یہ طے کرنا ہوگا کے فیٹف تکینکی فورم ہے یا سیاسی_ گویا کہ انہوں نے پاکستان کو مزید گرے لسٹ میں رکھنے کو سراسر سیاسی قرار دیا ہے

 کچھ یہی بات دوسرے لفظوں میں وزیر خزانہ نے اپنے ایک interview میں یوں کی تھی FATF کی شراہط میں کوئی چیز نہیں بچی کوئی اور ملک ہوتا تو گرے لسٹ سے نکل جاتا مگر علاقای سیاست میں پھنس کر رہ گے ہیں

شوکت ترین کی اس بات کا مطلب واضح تھا کے علاقے کی چین مخالف اور حمایت کی تقسیم کی زد پاکستان پر پڑ ری ہے چین مخالف مغربی بلاک جو علاقای سطح پر بھارت کے ساتھ اتحاد کر چکا ہے

یہ اتحاد ملکر ہر محاذ پر پاکستان کی كلای مروڑنے کی کوشش کر رے ہیں

ایف اے ٹی ایف کے حکام نے بھی یہ بات تسلیم کی ہے کے پاکستان نے ستایس میں سے چھبیس نكات پر کامیابی سے عمل کیا ہے اس کارکردگی کی بنیاد پر پاکستانی حکام کو اس بار گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں آنے کی قوی امید تھی مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہوتا اگر فیصلہ تیکنیکی اور حقیقی بنیاد پر کیا جاتا چونکہ معاملہ سیاسی ہے اس لئے پاکستان موجودہ حالات میں FATF کے هدف سے آگے بڑھ کر بھی کام کرتا تب بھی گرے لسٹ سے نکلنے کے امكان نہیں تھا

اب FATF نے پاکستان کو ڈومور کے انداز میں پاکستان کو مزید کچھ نكات کی فہرست تهما دی ہے گویا کہ پاکستان کا گرے لسٹ میں لمبے عرصے کے لئے رہنا اب یقینی ہے جن بنیادوں پر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا ہے وہ ختم ہونے کی بجاۓ مزید گہری ہو رہی ہے، پاکستان زیادہ قوت سے چین کے قریب اور امریکہ سے دور ہوتا جا رہا ہے

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے تو یہ سوال عمران خان سے بھی پوچھا کہ انکے امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں اصل رکاوٹ چین تو نہیں اس پر عمران خان نے چین اور پاکستان کے تعلقات کا ذکر کیا اور کہا کہ امریکہ کی جنگ میں شراکت دار بن کر پاکستان میں جو تخریب کاری ہوئی تھی اسے تعمیر میں بدلنے میں چین ہی اگے آیا ہے ادھر شوکت ترین نے علاقای سیاست کی زد میں آنے کی جو بات کی اسکا تعلق بھی اسی حقیقت سے ہے

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ملک ہر فورم پر پاکستان کی كلای مروڑنے کی کوشش جاری رکھیں گے

آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ہوں یہ FATF کی سیاست بازیاں یا عالمی عدالت میں کلبوشن کے کیس کی سنوای اور ایک مسلمہ جاسوس پر بےجا مہربانیاں ہوں یا یورپی ملک میں سری واستر گروپ کی جھوٹ کی فیکٹریاں یہ سب پاکستان کو فكس اپ کرنے کی کوششیں ہیں

مستقبل میں پاکستان کو مزید مغرب کے اس نارواسلوک کا سامنا کرنا پڑے گا اسلئے پاکستان کو ذہنی اور عملی طور پر اسکے لئے تیار رہنا چاہئے اس رویہ کے حامل مغربی مملاك اور مغربی اثر رسوخ والے اداروں سے کشمیر  سمیت کسی خیر کی توقع نہیں ہے اگر وہ کسی جگہ مسلہ کشمیر حل کرنے کی بات بھی کریں گے تو وہ بھارتی نقطہ نظر سے ہوگا ان تمام سیاسی اور علاقای اور مغربی ممالک کے اس رویہ کے بعد ان مملاك سے تعلقات تو رکھنے چاہیے لیکن ان سے مستقبل میں کسی اچھے کی امید نہیں رکھنی چاہیے اور جتنا جلدی ہو سکے پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جانا چاہیے تاکہ پاکستان اس طرح کی blackmailing سے بچ سکے اور اپنی آزادی اور خود مختاری کے فیصلے خود کر سکے اسی میں پاکستان کی بقا اور بہتری ہے جتنی جلدی یہ بات ہمارے حکمران طبقہ کو سمجھ آ جاۓ اتنا ہی اچھا ہے کیوں کے آخر میں اتنا کہنا چاہوں گا کے اہل کفر کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے چاہے ہم جتنا مرضی ہے انکے لئے کر لیں اس کی زندہ مثال امریکہ کی جنگ میں پاکستان نے جو 20 سال نقصان اٹھایا ہے وہ سب کے سامنے ہے پھر بھی امریکہ پاکستان سے خوش نہیں ہے اور اپنی ہار اور ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا ہے.

اللہ پاکستان کی حفاظت فرماۓ اور اس میں بسنے والوں پر اپنا کرم فرماۓ ۔۔۔آمین 

 

@ItzJadoon

Leave a reply