نظر بندی کی بجائے ایف آئی آر درج کرنی چاہئے تھی، عدالت کے ریمارکس

lahore high court

‏لاہور ہائیکورٹ میں یاسمین راشد کی تین ایم پی او کے تحت گرفتاری کے حکم کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی

یاسمین راشد کی بازیابی سے متعلق درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صفدر سلیم نے سماعت کی۔ انہوں نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دفعہ 144 کے نفاذ کو چیلنج کیا ہے طبی بنیادوں پر درخواست پر کارروائی چاہتے ہیں؟ وکیل نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے ،عدالت نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو جائے تو کیا دفعہ 144 لگائی جا سکتی ہے؟ یاسمین راشد کے خلاف شواہد پر آپ نے نظر بندی نوٹیفکیشن جاری کیا؟ رپورٹ کہاں ہے جس کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ،سرکاری وکیل نے موقف اختیار کیا کہ بیماری کے باوجود ڈاکٹر یاسمین صاحبہ ہر سیاسی سرگرمی میں موجود ہوتی ہیں عدالت نے کہا کہ واقعہ 9 مئی کو ہوا آپ نے نظر بندی کا حکم 12 مئی کو جاری کیا؟ آپ کو نظر بندی کی بجائے ایف آئی آر درج کرنی چاہئے تھی

سرکاری وکیل نے کہا کہ عدالتوں کو روٹین کے مطابق کام کرنا چاہیے،عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جج صاحبان ہفتہ کے روز آتے ہیں اور کام کرتے ہیں،‏آپ عدالتوں کو سکینڈلائز کر رہے ہیں،سرکاری وکیل نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا،دونوں جانب سے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے یاسمین راشد کی بازیابی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

 خدشہ ہے کہ پرویز الٰہی کو گرفتار کر لیا جائیگا

پرویز الہیٰ کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا ،

پرویزالہٰی کی حفاظتی ضمانت پر تحریری فیصلہ 

واضح رہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے،عندلیب عباس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے یاسمین راشد کوگرفتار کرلیا 4 سے 5 گاڑیاں اور40 سے 50 لوگ یاسمین راشد کو گرفتارکرکے لے گئے، ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہور سے کارکنوں کے ہمراہ اسلام آباد پہنچنا تھا،ڈاکٹر یاسمین راشد ڈیفنس یا کیولری گراﺅنڈ میں روپوش تھیں،یاسمین راشد پولیس سے چھاپوں کے باعث کافی روز سے گھر میں موجود نہیں تھیں،

Comments are closed.