اسکول کی گھنٹی جیسے ہی بجی، تمام بچے اسمبلی ہال میں آکر کھڑے ہوگئے۔ دعا کے بعد تمام بچوں نے بہ آوازِ بلند قومی ترانہ پڑھا اور پھر اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔ ابھی کلاسز میں پڑھائی کا آغاز ہوا ہی تھا کہ اچانک پورا اسکول فائرنگ سے گونج اٹھا،
16 دسمبر 2014 کا دن پوری قوم کےلیے تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جسے قوم کبھی نہیں بھلا سکے گی۔ سفاک دہشت گرد صبح 11 بجے اسکول میں داخل ہوئے اور معصوم بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور بچوں کو چن چن کر قتل کیا۔ سیکیورٹی فورسز کے اسکول پہنچنے تک دہشت گرد خون کی ہولی کھیلتے رہے اور کچھ ہی دیر میں ان ظالموں نے 132 معصوم جانوں سمیت 141 افراد کو شہید کردیا۔
واقعے کے بعد ہر طرف خون اور معصوم بچوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور اگر پیچھے کچھ بچا تھا تو صرف شہید بچوں کے والدین کی آہیں اور سسکیاں تھیں۔ اسکول کے در و دیوار دہشت اور ہولناکی کی دردناک کہانی بیان کررہے تھے، دہشت گردوں نے اسکول میں درندگی کی ایسی مثال قائم کی کہ انسانیت بھی شرما جائے۔
سلام ان معصوم شہدا کو جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان شہدا کے لواحقین کو جن کے بچے صبح اسکول تو گئے لیکن واپس گھروں کو نہ آئے۔ سلام ان بہادر اساتذہ کو جنہوں نے بچوں کو بچانے کی خاطر اپنی جان قربان کردی، بالخصوص پرنسپل آرمی پبلک اسکول طاہرہ قاضی کو جنہوں نے فرض شناسی اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان قربان کردی لیکن دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ میں دیوار بن کر کھڑی رہیں۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ہر آنکھ اشک بار تھی۔ پاکستان سمیت پوری دنیا اس ساںحے کی بربریت کو دیکھ کر خون کے آنسو رو رہی تھی۔ واقعے میں شہید بچوں اور افراد کے لواحقین کے صبر اور عظمت کو سلام۔ لیکن جو اس حملے زخمی ہوئے تھے، ان کے ذہنوں پر اس دردناک سانحے کے انمٹ نقوش آج تک موجود ہیں۔
اے پی ایس سکول کے ننھے طالبعلموں کوجس طرح چن چن کرشہید کیا گیا یہی توانداز فرعون کا تھا وہ بھی بچوں کادشمن تھا ، انسانیت کے ان ننھے ،پیارے اور والدین کی آنکھوں کے تاروں کو اس طرح مسل دیتاتھا جس طرح آرمی پبلک سکول میں ننھے منھے بچوں کو چن چن کرماراگیا،فرعون بچوں کوتیل کے کڑاہے میں پھینک بھون دیتا تھا وہ اے پی ایس میں گھسنے والے فرعون کے وارث بھی تو ویسے ہی بھون رہے تھے
اے پی ایس میں بچ جانے والے بچوں میں سے کچھ کا یہ کہنا ہے کہ وہ دہشت گرد ساتھی طلباکوکھینچ کے سامنے لاتے اورفرعون کی طرح بھون دیتے وہ تیل کے کڑاہے میں بھونتا تھا یہ گولیوں سے بھون رہے تھے
ویسے بھی افغانیوں کے بارےمیں مورخین کاکہنا ہےکہ اسی اسرائیلی نسل سے چلے آرہے ہیں،مورخین کے مطابق فرعون نسلاُ اسرائیلی تھا مگرمگربعد میں مختلف قبائل میں بٹ جانے کی وجہ سے قبیلے کے نام سے مشہورہوگیا
مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو روکنے کے لیے ہزار ہا بچوں کا قتل عام بھی ان کی بدنامی کا اہم محرک تھا۔ قدرت نے موسیٰ کو فرعون کے گھر میں پروان چڑھا کراس کی تمام آہنی تدبیریں الٹ دیں۔بالکل ویسے ہی اللہ کے فضل سے پاک فوج نے دشمن کی تمام سازشوں کو بری طرح نہ صرف ناکام بنایا بلکہ دشمنان پاکستان کی تمام تدبیریں الٹ گئیں ،
جس طرح فرعون کوبچوںکے قتل کے بعد شکست ہوئی اوروہ آج تک دنیا اس کی شکل دیکھ کراس کے مظالم کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں آج بھی ویسے ہی بنی اسرائیل کی نسل سے تعلق رکھنے والے ان افغانی دہشت گردوں کے انجام کو دیکھ کراس قوم کے حوصلے بلند ہورہے ہیں ، اب میں بتاتا ہوں کہ جوفرعون کی سنت اے پی ایس میں دہرائی گئی اس سے پہلے یہ سنت کس کس دور میں دہرائی گئی
ہزاروں سال کے بعد آج کا انسان فرعون کے غیرانسانی طرزعمل اور بچہ کشی کی پالیسی پر دہنگ رہ جاتا ہے۔ مگرمعصوم بچوں کے قتل عام میں فرعون تنہا نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر فرعون، ان سے قبل اور آج تک دنیا ایسے فرعونوں سے بھری پڑی ہے جو طاقت کے نشے میں اقتدارکے دوام کے لیے موسیٰ کی پیدائش کو روکنے کی خاطرغلطاں و پیچاں رہے ہیں۔
فرعون مصر کی راہ پر چلتے ہوئے بچوں کو قتل کرنے والے بادشاہوں میں یوگنڈا کے فوجی ڈکٹیٹر ‘اِدی امین دادا’ نے سنہ 1971ء تا 1979ء میں اپنے ہی عوام کو اس بے رحمی سے قتل کرایا کہ محض نو سال کے عرصے میں 80 ہزار بچوں سمیت پانچ لاکھ افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ یوگنڈا کا کوئی محلہ، قصبہ اور شہرایسا نہیں بچا جہاں پر امین دادا کے اجرتی قاتلوں نے کم سن بچوں کو سنگینوں میں نہ پرویا ہو۔ خواتین کی کھلے عام عصمت ریزی کے واقعات سن کر انسانی تہذیب کا سرشرم سے جھک جاتا ہے۔
بچوں کے قتل عام میں بدنام زمانہ بادشاہوں میں "Attila the Hun” کا نام بھی سر فہرست ہے۔ آٹیلا ‘ہیونک ایمپائر'[موجودہ یورپی ممالک پر مشتمل تھی] کا 19 سال تک بادشاہ مطلق بنا رہا۔ اس نے یہ طے کر رکھا تھا کہ اس کی سلطنت میں اولاد نرینہ کم سے کم ہو تاکہ اس کی حکومت کو اندر سے کوئی خطرہ درپیش نہ ہو۔ پڑوسیوں کو زیر کرنے کے عادی اس بادشاہ نے اپنے فوجیوں کو آس پاس کی ریاستوں میں بھی بچوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ دریائے دینوب کے آر پار اس کے فوجی اچانک حملے کرتے اور پوری پوری بستیوں کو نیست ونابود کر دیتے۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کو قتل کرنے والے قاتلوں کو انعام اکرام سے نوازا جاتا۔
منگول سلطنت کے بانی چنگیز خان کی انسانیت دشمنی ایک ضرب المثل تھی۔ فتوحات کے شوق میں اس کی فوج جہاں جہاں سے گذرتی انسان، حیوان حتیٰ کہ درختوں اور فصلوں کو بھی تہس نہس کرتی چلی جاتی۔ تاتاریوں کی وحشت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ اپنے ہم مذہبوں کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔ چنگیز خان کے دور حکومت میں لاکھوں بچوں کو قتل کیا گیا۔
بیسویں صدی کے سفاک بادشاہوں اور انسانوں کا خون پینے والوں میں ایک نام کمبوڈیا کے وزیراعظم پول پاٹ کا ہے۔ پول پاٹ شکل و صورت کے اعتبار سے گلہری نما انسان تھا مگر معصوم لوگوں کے خون کا اس قدر پیاسا کہ اس کے حکم پر لاکھوں لوگ نہایت بے رحمی سے قتل کیے گیے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ان کی مائوں سے چھین کر آگ کے الائو میں پھینک دیا جاتا۔ کئی کئی بچوں کو اوپر تلے رکھ کر رسیوں سے باندھنے کے بعد پہاڑوں سے گہری کھائیوں میں پھینک دیا جاتا۔ بچوں کو بھوکا رکھ کرانہیں سسک سسک مرنے پرمجبور کیا جاتا۔ ان سے جبری مشقت کی لی جاتی ۔ بھوکے پیاسے بچے جب نڈھال ہو کر گر پڑتے تو اُنہیں اٹھا کر بادشاہ کے کتوں کے آگے ڈالا جاتا۔ یہ کتےان معصوموں کو بھنببوڑ کر انسانیت کا ماتم کرتے۔
بچوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے والوں میں روس کے ‘آئیون چہارم’، جرمنی کے اڈولف ایکمن، ایڈوولف ہٹلر، بیلجیم کے لیوپول دوم اور سوویت یونین کے جوزف اسٹالن کے نام بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں فراعنہ کی کوئی کمی نہیں۔ ایک فرعون وقت منظم ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پرموجود ہے۔ اس فرعون کے ہاتھوں سنہ 1948ء سے آج تک فلسطینی قوم کی کئی نسلیں تہہ تیغ کی جا چکی ہیں۔ فلسطین میں قیام اسرائیل کے بعد سے آج تک کوئی دن ایسا نہیں گذرا جس میں کسی فلسطینی بچے کوشہید، زخمی یا گرفتار نہ کیا گیا ہو۔ فلسطین میں باربار مسلط کی گئی جنگوں میں بچوں کو آسان شکار کے طورپر نشانہ بنایا جاتا۔
2014ء کے وسط میں غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ میں شہید ہونے والے 22 سو شہریوں میں سے 560 بچے تھے۔ سنہ 1967ء کے بعد 80 ہزار فلسطینی بچوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ سنہ 2000ء کے بعد سے اب تک 12 ہزار فلسطینی نونہال گرفتار کیے گئے اور 4000 ہزار سے زائد شہید کیے جا چکے ہیں۔ فلسطین میں اکتوبر کے اوائل سے جاری تحریک کے دوران صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بیشتر فلسطینیوں کی عمریں 18 سال یا اس سے بھی کم ہیں۔
بچوں کے قتل عام میں فرعون بدنام ہوا مگر وہ قصہ پارینہ ہوگیا۔ انسانی شعور کی پختگی کے اس دور میں بھی فلسطین میں صہیونیوں کےہاتھوں ‘اندھیر نگری چوپٹ راج’ ہے۔ جیلوں میں ڈالے گئے بچوں پرڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم فرعونی مظالم سے کسی بھی شکل میں کم نہیں ہیں۔ بچوں کو گولیاں مارنے اور انہیں زخمی کرنے کے بعد سڑکوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ کسی امدادی کارکن کو مرغ بسمل بنے زخمی کی مدد کی اجازت نہیں دی جاتی۔ صہیونی درندے تڑپتے فلسطینیوں کو جام شہادت نوش کرنے کے عمل سے محظوظ ہوتے ہیں۔
دنیا پھر بھی فلسطینیوں کو ہی دہشت گرد قرار دیتی اور صہیونی گماشتوں کو دنیا کے امن پسند، جمہوریت کے علمبردار اور مظلوم قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ فرعون کے ایجنٹ بنی اسرائیل کے ہاں کسی بھی بچے کو پیدا ہوتے ہی قتل کر ڈالتے تھے مگر فرعون وقت کا طریقہ واردات کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ آٹھ سے دس سال کے بچوں کو پکڑنے کے بعد کال کوٹھڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اعتراف جرم کرانے کے لیے ان کے ہاتھوں کے ناخن کھینچے جاتے ہیں۔ بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے ہیں۔ الٹا لٹکا کر کوڑوں سے مارا جاتا ہے۔ تشدد کے آحری حربے استعمال کرکے بچوں کو شہید یا تاحیات اپاہج اور معذور کر دیا جاتا ہے۔ مظالم کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ فرعونیت بھی ان کے سامنے بے معنی ہو جاتی ہے۔








