وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا نیویارک میں منعقدہ جموں وکشمیر پر ’او۔آئی۔سی‘ رابطہ گروپ کے سفراء اجلاس

0
98

سفراء اجلاس سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب

معزز مستقل مندوبین حضرات
قابل احترام ساتھیو اور دوستو
السلام وعلیکم
آج نیویارک میں منعقدہ ’او۔آئی۔سی‘ کے جموں وکشمیر رابطہ گروپ کے سفیروں کے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہورہی ہے۔
گزشتہ نومبر میں نیامے میں منعقدہ ’او۔آئی۔سی‘ وزرا خارجہ کونسل کے سینتالیسویں اجلاس کے دوران جموں وکشمیر رابطہ گروپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ سمیت دیگر فورمز پر اجاگر کیاجائے اور رابطہ گروپ کے مسلسل اجلاس منعقد کئے جائیں۔
یہ امر باعث اطمنان ہے کہ رابطہ گروپ کی نیویارک شاخ اس اجتماعی کاوش میں نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔ میں جموں وکشمیر کے مظلوم عوام سے یک جہتی میں امت مسلمہ کی مشترکہ موثر آواز تشکیل دینے میں برادر ممالک آزربائیجان، نائیجر، سعودی عرب اور ترکی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سیکریٹری جنرل ’او۔آئی۔سی‘ کی قیادت اس میں یکساں طورپر ممدو معاون رہی ہے۔
نیامے میں منعقد حالیہ وزرا خارجہ کونسل میں ’او۔آئی۔سی‘ کی طرف سے ٹھوس اور دوٹوک حمایت کشمیریوں کے لئے ان کے منصفانہ، ناقابل تنسیخ اور جائز استصواب رائے کے حق کے حصول کی جدوجہد میں تقویت کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔
غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں صورتحال عالمی برادری سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ 5 اگست 2019 کے غیرقانونی بھارتی اقدامات کے بعد سے مقبوضہ خطہ ’تاریکی کے پردے‘ سے ڈھانپ دیاگیا ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر کے غیرانسانی محاصرے اور کمیونیکیشن قدغنوں کو عائد ہوئے پہلے ہی 550 سے زائد دن کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آج یہ مقبوضہ خطہ دنیا کی سب سے بڑی اوپن جیل بن چکا ہے۔
بھارتی قابض افواج جو سیاہ اور ظالمانہ قوانین کی بدولت کسی بھی سزا سے مبرا ہیں، کشمیریوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھارہی ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین ترین پامالیوں کا ارتکاب کررہی ہیں۔ نوجوانوں سمیت ہزاروں کشمیریوں کا کچھ اتہ پتہ نہیں کہ قابض بھارتی افواج نے انہیں کہاں قید کررکھا ہے اور ان کے گھر والے اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
موسم سرما، مقبوضہ خطے میں انسانی مصائب کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ کورونا عالمی وباءکشمیریوں کے لئے ایک نیا عذاب ثابت ہوئی ہے۔
کشمیریوں کی حالت زار پر آنکھیں بند کئے ’آر۔ایس۔ایس‘، ’بی۔جے۔پی‘ حکومت اُن سازشوں میں مصروف عمل ہے جس کے بارے میں کھلم کھلا وہ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر کے لئے ’حتمی حل‘ قرار دینے کی پیشگوئیاں کرتے پھر رہے ہیں۔
اس ’حتمی حل‘ میں سرفہرست یہ ہے کہ آزادی کا حق مانگنے والے کشمیریوں کو جسمانی، سیاسی اور نفسیاتی طورپر کچلنے کے لئے ایک ظالمانہ مہم پوری شدت سے جاری ہے۔ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں 9 لاکھ فوج تعینات کی ہوئی ہے جس سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ قابض افواج کی موجودگی والا خطہ بن چکا ہے۔
’حتمی حل‘ کا دوسرا حصہ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب کی تبدیلی پر مشتمل ہے تاکہ اسے مسلم اکثریتی آبادی سے ’ہندتوا‘ غالب خطے میں تبدیل کردیاجائے۔ سکونت اور حق ملکیت اور ڈومیسائل کے نئے قوانین لاگو کئے گئے ہیں تاکہ پوری قوت سے اس نوآبادیاتی منصوبے کو مکمل کرنے میں سہولت بہم پہنچائی جاسکے۔ آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے یہ ہتھکنڈے عالمی قانون بشمول چوتھے جینیوا کنونشن اور جموں وکشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
سوم، بھارت پاکستان کو مجبور کرنا چاہتا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں اس کا مسلط کردہ حل تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلے اور اس مقصد کے لئے پاکستان کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی دی جاتی ہے، ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کرائی جاتی ہے، فساد اور انتشار پھیلانے کے حربے اختیار کئے جاتے ہیں اور معاشی جارحیت کو ہتھیار بنایاجارہا ہے۔ فروری 2019 میں پاکستان کے خلاف بھارت کی فوجی مہم جوئی پر پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے موثر جواب دیا اور بھارت کا طیارہ مار گرایا جبکہ بھارتی فضائیہ کے پائلٹ کو بھی گرفتار کرلیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے ضبط وتحمل کا مظاہرہ کیا جس سے کشیدہ صورتحال ختم ہوئی۔
انتہاءپسند ’آر۔ایس۔ایس‘،’بی۔جے۔پی‘ کی جھوٹی اطلاعات کوئی نیا تنازعہ بھڑکاسکتی ہیں تاکہ یہ اقتدار پر قابض رہے اور داخلی مسائل سے توجہ ہٹائی جاسکے۔ ’بی۔جے۔پی‘ کی قیادت میں انتخابی وسیاسی فائدے کے لئے فروری 2019 کا جنگی ڈرامہ رچانے کے بارے میں بھارتی میڈیا میں ہونے والے حالیہ انکشافات ان امکانات کے ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کے خلاف کوئی اور ’فالس فلیگ آپریشن‘ رچانے کے بھارتی منصوبوں سے پہلے ہی عالمی برادری کو بارہا خبردار کرچکے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں حکومت پاکستان نے تنازعہ جموں وکشمیر پر ایک بھرپور سیاسی اور سفارتی مہم چلائی ہے۔
ہماری حکومت کی تشکیل کے محض ایک ماہ بعد ہی ستمبر 2018 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کا مجھے اعزاز حاصل ہوا۔
وزیراعظم عمران خان کے 2019 میں نیویارک کے دورے کے موقع پر اقوام متحدہ میں ان کی مصروفیات میں کشمیر کے مسئلے کو مرکزی توجہ حاصل رہی۔ وزیراعظم نے ’او۔آئی۔سی‘ رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ سے بھی ملاقات کی اور انہیں بھارت کے غیرقانونی اور یک طرفہ اقدامات کے نتیجے میں مخدوش علاقائی صورتحال سے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے ستمبر2020 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تہترویں اجلاس سے ورچوئل خطاب میں غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر کی سنگین صورتحال سے عالمی برادری کو ایک بار پھر آگاہ کیا۔
5 اگست 2019 سے جموں وکشمیر پر ’او۔آئی۔سی‘رابطہ گروپ نے تین اجلاس منعقد کئے ہیں جن میں سے دو وزارتی سطح کے اجلاس تھے۔ ’او۔آئی۔سی‘ رابطہ گروپ کے وزارتی اعلامیہ میں عالمی برادری کو حمایت اور یک جہتی کا ٹھوس پیغام دیاگیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اگست 2019، جنوری 2020 اور اگست 2020 میں تین مرتبہ اس معاملے پر غور کیا۔
اس رفتار اور روش کو برقرار رکھنا ازحد ضروری ہے۔ ’او۔آئی۔سی‘ کی طرف سے متحد سیاسی پیغام بھارت کو دینا انتہائی ناگزیر ہے۔ ہمیں پوری قوت سے بھارت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیرقبضہ جموں وکشمیر میں یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات واپس لے، انسانی حقوق کی سنگین ترین پامالیاں بند کرے، اقوام متحدہ اور ’او۔آئی۔سی‘ کے آزاد انسانی حقوق کمشن (آئی۔پی۔ایچ۔آر۔سی) کے حقائق معلوم کرنے والے وفود کو مقبوضہ خطے میں جانے کی اجازت دے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق تنازعہ جموں وکشمیر کو پرامن حل کرے۔
مجھے اعتماد ہے کہ رابطہ گروپ کا اجلاس اس مقصد کے حصول کے لئے عملی اقدامات کی نشاندہی اور لائحہ عمل کی تیاری میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔
میں آپ کی کامیابی کے لئے نیک تمناوں کا اظہار کرتا ہوں۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

Leave a reply