فوری انصاف کی عدالتیں بنی نوع انسان کی استعماری قوتوں سے اصلی آزادی کی علمبردارہیں تحریر انوار الحق۔

0
70

1945کے بعد بیشتراقوام عالم پرسے برطانوی سامراج کے بتدریج خاتمے اور انخلاء کے بعد جن چیزوں کا غلام اقوام میں تسلسل ازحد یقینی بنایا گیا ان میں سرفہرست سامراجی نظام انصاف ہے۔ یعنی جو نظام فاتح اقوام نے مفتوحہ اقوام پر اپنا جبرواستبداد برقراررکھنے کے لئے پوری قوت سے نافذالعمل کیا تھاوہی نظام آج تک غلام اقوام جو کہ بظاہر اب آزاد ہو چکی ہیں پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نافذالعمل ہے۔اس پورے عرض گذاری سے شروع ہونیوالے اور متوفی پر ختم ہونیوالے نظام پر سرسری نظر دوڑانے پر ہی معلوم ہوجاتاہے کہ یہ نظام حصول انصاف کے لئیے ہے ہی نہیں بلکہ ترویج ظلم کے لیئے ہے۔ قول مشہور ہے کہ پاکستان میں حصول انصاف کے لیے آپ کے پاس قارون کا خزانہ اور عمر خضر ہونی چاہئے ۔ یعنی نہ قارون کا خزانہ ہو ، نہ عمر خضر ہو اور نہ انصاف ہو۔پاکستان میں فوجی حکمران آئے ، سول حکمران آئے بڑے بڑے بیوروکریٹ آئے جن کی کتابیں مشہور ہوئیں ہر طرح کے طاقتور لوگ آئے اور ان سب نے اپنی اپنی بھانت بھانت کی پالیسیاں چلائیں، قانون بنائے اور بے شمار خرافات کیں لیکن ان سب نے 74سالوں میں جو ایک مشترکہ چیز یقینی بنائی رکھی وہ یہ تھی کہ کسی طرح اس ملک کا نظام عدل ٹھیک نہ ہو۔حکمران طبقہ اچھی طرح جانتا ہے کہ جس دن اس ملک میں فوری انصاف ملنا شروع ہوگیا ان کی بدمعاشیوں اور عیاشیوں کو بھی نکیل ڈل جائیگی۔ تو لہذا اب مختلف نظریات کی دعویدار انگنت پارٹیاں اور جھنڈے ، بولیاں ایک سیل بے کراں ہے لیکن کہیں کوئی عملی طور پر فوری انصاف کیلئے کام کرتا نظر نہیں آتا نہ آئیگا۔ اس ملک میں سب طرح کے قانون و آرڈیننس بن کر نافذ ہو سکتے ہیں لیکن 14دن کے اندراندر فیصلہ کرنے کے بنے ہوئے قانون پر عملدرآمد کوئی مائی کا لعل نہیں کروائیگا اور نہ کوئی اس پر بات کریگا ۔اور ایسا نہ کرنیکے صورت میں کوئی اس پر بات نہیں کریگا نہ سروس کٹے گی نہ مراعات۔ سب کو معلوم ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے ذمرے میں آتی ہے لیکن انصاف میں تاخیر جاری ہے۔ اصل ظلم یہ ہے جس کیخلاف کچھ لوگ بولتے ضرور ہیں لیکن ان کی آواز نقارخانے میں طوطی جتنی بھی نہیںاور مزے کی بات یہ ہے کہ انصاف ،انصاف کی دھائی دینے والے بھی دوسروں کیلیے انصاف جبکہ اپنے لیے ہر قسم کی معافی کے طلبگار ہیں۔
امریکہ یورپ اور اسکے حواری افغانستان میں اپنی بدترین شکست کا بدلہ اب طالبان کے نظام انصاف پر انگلیاں اٹھا اٹھا کر لے رہے ہیں حالانکہ وہی اسلامی قوانین سعودی عرب میں نافذہیں لیکن ادھر تیل اور ڈالر کے اشتراک سے حاصل ہونیوالی دولت کے انبار نظر آتے ہیں اور طالبان بے چارے غریب ہیں اس لیے ان میں نظام میں خرابیاں نظر آتی ہیںجوکہ منافقت ہے۔ امریکہ کو بے گناہوں پر ڈرون حملے کرتے ہوئے کوئی انسانی حقوق یادنہیں آتے اور نہ ہی خواتین کے چادر اور چاردیواری کے حق کی پامالی نظر آتی ہے لیکن طالبان اگرکسی مستند چور کے ہاتھ کاٹ دیں یا بچوں سے بدفعلی کرکے ان کو جان سے مارنے والے درندوں کو چوک چوراہے پر لٹکا دیں تو ان نام نہاد انسانی حقوق والوںکے پیٹ میں مروزاٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ادھر پاکستان کو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئے ہوئے 74سال بیت گئے بلکہ بتا دیے گئے لیکن آجتک اس میں اسلامی قوانین کا بعینہ نفاذ نہیں ہونے دیا گیا۔ کہتے ہیں کوئی قانون یہاں اسلامی قوانین سے متصادم نہیں بنا نہ بن سکتا ہے ۔ تو پوچھنایہ کہ اسلامی ماخذ قانون Islamic Jurisprudenceسے لاکھوں کروڑوں مقدمات کے التوا کا جواز بھی نکال کر دکھا دو۔ یہی ایک بات کہ اس ملک میں بندہ مر جاتا ہے نسلیںبرباد ہوجاتی ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا اس نظام کو غیراسلامی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ اس نظام ناانصاف سے فائدہ اٹھانے والے لوگ ہیں۔ لوئر کورٹس، سیشن کورٹس، ہائی کورٹس، سپریم کورٹس، اسلامی کورٹس سے ایک اپر کلاس کے ظلم کے نظام کو دوام بخشنے کے ادارے ہیںجو بدمعاشیہ کو تحفظ فراہم کرتے ہیںاور غریب کی نسلیں اجاڑ دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو سولیوں پر ہونا چاہئے تھا وہی لوگ کرسیوں پر براجمان ہیں۔

Leave a reply