رہبر کمیٹی کے مطالبات سامنے آگئے،پرویزخٹک ڈٹ گئے
اسلام آباد: حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، دونوں کمیٹیوں کے اراکین اور رہنماؤں کی ملاقات اکرم درانی کے گھر پر ہوئی۔حالات وواقعات سے یہی ظاہر ہےکہ ان میں سے پہلے دو مطالبات ناقابل قبول جبکہ باقی دوقابل ترمیم ہوسکتے ہیں،
ایف اے ٹی ایف سے پاکستان کا نام کیوں نہیں نکالا جارہا، وزیراعظم
ذرائع کےمطابق حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے رہبر کمیٹی سے ملاقات کی اور مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا۔ حکومتی کمیٹی میں سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی، پرویز الہیٰ، نورالحق قادری، اسد عمر اور اسد قیصر شامل تھے۔ملاقات کے اس دورمیں صادق سنجرانی کا کہنا تھا کہ مذاکرات سے مسائل کا حل نکالنا جمہوریت کا حسن ہے، ہم بات چیت اور مفاہمت کےلیے یہاں آئےہیں، رہبرکمیٹی کےساتھ بات چیت کر کے مسئلے کا حل نکالیں گے۔
چاندی اور سونے کے تمغے،جتنے زیادہ بچے اتنا زیادہ معاوضہ
وفاقی وزیر داخلہ اور مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیراعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہوگئی اور نہ ایسا کوئی مطالبہ سنا جائے گا‘‘۔ پرویز الہیٰ کا کہنا تھا کہ ’’میں اور صادق سنجرانی مفاہمت کرانے آئے ہیں‘‘۔
دشمن موقع کے تلاش میں،آزادی مارچ ہدف ہوسکتا ہے
ذرائع کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے چار نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم فوری طور پر استعفیٰ دیں، فوجی کے بغیر نئی انتخابات کرائے جائیں، اسلامی دفعات کا تحفظ اور سویلین اداروں کی بالادستی قائم کی جائے جبکہ حکومتی کمیٹی آزادی مارچ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالے۔