گر دیکھا جائے تو ہر جگہ رسم و رواج شوق و زوق سے منائے جاتے ہیں، اور اِن قبیح رسومات نے ہمیں اپنوں سے غیر بنا دیا ہیں پہلے پہل رشتداروں یا ہمسایوں میں کسی کی حالت علیل ہو جاتی تو لوگ بیمار پرسی کے لئے جاتے اور اچھی صحت کی دُعا دے کر واپس آتے تھے اور سارا زمانہ خوش ہوتا. بیمار پرسی کا ثواب تو ایک قدم پے ہزار نیکی بھی مل جاتی تھی تو تب حقیقت میں لوگ بیمار داری کرنے ہی جاتیں تھیں اب موجودہ صورتحال کچھ یوں ہے کہ جو کوئی بھی بیمار ہو جاتا ہے ہم چاہتے ہوئے بھی بیمار پرسی کے لئے نہیں جا سکتے.
اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جانے سے پہلے یہ مشورہ کریں گے کہ ہم نے تو بیمار پرسی کے لئے جانا ہے کیا جیب ہمیں اجازت دیتا ہے ؟ ہم کتنے پیسے دیں گے ؟ اگر کم پیسے دیں گے تو جگ ہنسائی ہوگی وغیرہ وغیرہ. یہ بات بھی واضح رہے کہ جب بھی آپ بیمار پرسی کے لئے جاؤ گے تو بندوبست کر کے جانا ہوگا کیونکہ وہ دائم المریض بھی اِس خیال میں مگن رہتا ہے کہ یہ مجھے کتنے پیسے دیں گے؟ اور گھر والوں کی کیفیت بھی کچھ یہ ہوتی ہیں کہ اب اِس کو کِیا کیا پکایا جائے؟ کیونکہ وہ بھی آپ کے پیسوں کے برابر ہی آپ کو پروگرام منعقد کرتے ہیں.
مطلب زیادہ پیسے دینے والوں کو زیادہ ڈیش مثلاً چکن، قیمہ، بریانی، نہاری، فروٹ، اور بحرین کا مشہور چپلی کباب ،وغیرہ فراہم کیا جاتا ہے جب کہ کم پیسے دینے والوں کو ایک ادھ ڈیش کا مخصوص پروگرام کیا جاتا ہے. گھر سے جاتے وقت ہم کچھ اِس طرح سوچتے ہیں کہ وہ اگر اچھے طریقے سے مہمان نوازی کریں گے تو ہم زیادہ پیسے دیں گے اور اگر اچھی مہمان نوزای نہیں کریں گے تو ہم کم پیسے دے کر بات کو رفع دفع کریں گے. راقم کے تجزیے کے مطابق دور جدید میں "مہمان نوازی گئی بھاڑ میں” کہاں کی مہمان نوازی.
یہ تو ویسے بھی سودا بازی ہے بس سودا طے کرنا ہے اور اِس سودا بازی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم لوگ اپنوں کی محبت سے محروم ہوگئے ہیں اللّه کرم کریں آخر کب تک چلے گا؟ جب ہم لوگ کافی عرصہ بعد اپنے رشتداروں کے گھر اُس کے حالات پوچھنے جاتے ہے تو وہ شکوہ کرتا/کرتی ہے کہ مجھ سے بات تک نہ کریں آپ کو ابھی فرصت ملی؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے بیمار معاشرے میں بیمار کی بیمار پرسی کے لئے خالی ہاتھ آنا جانا دشمنی کے برابر بات سمجھی جاتی ہے یا ہمارے معاشی حالت کچھ ٹھیک نہیں اور پیسوں کی تنگی تھی یا ہیں اس کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ مصروفیات اتنے بڑھ چکے ہے کہ بالکل وقت نہیں ملتا صبح جاتے ہیں اور رات کو لوٹتے ہیں۔
خدارا اِن فضولیات سے باز آجائے اور بغیر پیسوں اور بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے حالات پوچھا کریں اِس سے اور کچھ خاص تو نہیں ہو گا البتہ دن بہ دن محبت بڑھے گی یقین مانے اِس دورِ افتادگی میں ہم صرف ایک چیز کی کمی شدت سے محسوس کرتے ہے اور وہ ہے "محبت” لوگوں کے پاس سب کچھ موجود ہے ماسوائے "محبت” کے اور ہمارے بیچ محبت نہ ہونے کی وجہ پیسے ہی ہو سکتے ہے.
پیسوں نے ہی ہمارے بیچ محبت جڑ سے ختم کر دی ہے. کہنے کا نصب العین یہ ہے کہ لوگوں کو اِس کالم کے زریعے یہ مثبت پیغام پہنچایا جائے کہ یہ مہنگے اور قبیح رسومات کو جڑ سے ختم کرنا چاہئے تاکہ ہمارے بیچ محبت کا یہ سلسہ قائم و دائم رہیں.اللّه ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھیں اور اِن باتو پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
نوٹ: میرا قبیح رسومات کے حوالے سے کالم شائع ہونے پر میری والدہ محترمہ کے تاثرات کچھ یہ تھے،
کالم جب شائع ہوا تو سب سے پہلے ماں کو پڑھ کر سنانے اور سمجھانے لگا پڑھنے کے بعد ماں کہنے لگی قیموس یہ جو باتے آپ نے لکھی ہیں اور آپ کا جو مرکزی خیال ہے یہ یقیناً قابل تعریف ہے، پر کیا لوگ اِن باتوں کو عملی شکل دے گے؟
یہ سوال میرے لئے یقیناً مشکل تھا کیونکہ ایسے ڈھیر سارے خوب صورت اور قابل غور باتے ہیں جو فقط کتابوں تک محدود ہیں وہ لوگ پڑھ کر لُطف اُٹھاتے ہے، پر اُن تمام تر باتوں پر عمل کرنا اُن کے لئے موت کا مترادف ہوتا ہے۔
میرا کالم لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ جِن رسومات اور رواجات نے ہمیں اپنوں سے غیر بنا دیا ہے اُن کو جڑ سے ختم کرنا چائے۔
خدا ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین
حالد حسین ادیب کے قلم سے۔
Twitter Handle:
@KD_004