
صنف نازک ہوں مگر میں سرفراز ہوں تاریخ کے کرداروں میں۔ میں صنف نازک محبت کی علامت۔ میں صنف نازک وفا کا پیکر۔
صنف نازک۔ عورت۔ معاشرے کا ایک ایسا ستون جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ تہذیب یافتہ نہیں ہو سکتا۔
یہ کہانی ہے آج کے دور کی۔ اکیسویں صدی کی۔ اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی لوگ بیٹیوں کی بجائے بیٹے کی پیدائش کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ انہیں نسل چلانے کے لیے بیٹے چاہیے۔ اولاد کا اختیار تو رب العالمین کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہے رحمت سے نوازے۔ جسے چاہے نعمت عطا کرے۔ ایک عورت آتی ہے ڈاکٹر صاحب کے پاس کہ ڈاکٹر صاحب کوئی ایسی دوا دیں کے میری بہو کے صرف بیٹا پیدا ہو۔ ایسا رواج بنا دیا ہے کہ سسرال میں صرف اسی عورت کی پوزیشن مضبوط ہے جو بیٹے کی ماں ہے۔ نسل چلانی ہے۔ نسل چلانے والی بھی ایک عورت ہی ہے نا۔؟ عورت کے بطن سے ہی اولاد جنم لیتی ہے نا۔ تو صرف بیٹوں کا رونا کیوں۔؟
اگر دنیا میں عورت نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ میں بتاتی ہوں اگر دنیا میں عورت نہ ہوتی تو مرد کی تکمیل نہ ہو پاتی وہ ادھورا ہی رہتا، عورت نہ ہوتی تو دنیا نا مکمل ہوتی، عورت نہ ہوتی تو دنیا میں حسن نہ ہوتا۔ عورت کی بدولت ہی دنیا میں رنگینی ہے۔ عورت کی بدولت ہی دنیا میں جذبات و احساسات ہیں۔ مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اگر عورت نہ ہوتی تو مرد کا وجود بے کار ہوتا اور دنیا میں تخلیق کا عمل نہ ہوتا، نسل نہ بڑھتی، ایک خوبصورت گھر کا تصور نہ ہوتا اور دنیا بالکل بے معنی اور بے رنگ ہوتی۔ کیوں کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔
ہمیں آج یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت بھی ہمارے معاشرے کا ایک مضبوط ستون ہے۔ عورت کے بغیر یہ معاشرہ نامکمل ہے۔ عورت عزت و احترام کا نام ہے۔ عورت والدین کے لیے باعث فخر اور بھائیوں کے لیے باعث عزت ہے۔ عورت صبح کا نور ہوتی ہے۔ عورت رات کا تارا ہوتی ہے۔ اللّٰہ تعالٰی کی دی گئی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت عورت کا وجود ہے۔ گھر ہو یا کاروبار ہر جگہ عورت ایک مضبوط ستون ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کی ذات جو سب سے بڑے مسئلے کا شکار ہے وہ یہ کہ قوت فیصلہ کی طاقت اس کے پاس نہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک دوست نے پوسٹ شیئر کی، جس میں اس نے لکھا تھا کہ ” میں بچپن سے دیکھتا آرہا ہوں۔ صبح سویرے ماں اٹھایا کرتی تھی کہ ” بیٹا اٹھ جاؤ تمہیں سکول جانا ہے ". جب کچھ بڑا ہوا تو بہن اٹھاتی تھی کہ ” بھائی جان اٹھ جاؤ ناشتا تیار ہے” بھائی جان کیا آج کالج نہیں جانا۔؟
شادی ہوئی تو بیگم کہنے لگی "اٹھ بھی جائیں، آپ نے ڈیوٹی پر نہیں جانا؟”.. کچھ عرصے بعد بیٹی کہنے لگی ” ابو جی اٹھ جائیں، آپ نے مجھے اسکول چھوڑنے جانا ہے”۔ اب بڑھاپے کی عمر ہے اور بہو رانی کہتی ہے ” بابا جی اٹھ جائیں، ناشتا کر لیں، آپ نے دوا وقت پر کھانی ہے”۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت جس روپ میں بھی ہو عظیم ہے”.
معاشرے میں اسلام نے عورت کو بہت مقام و مرتبہ اور شرف و اعزاز عطا فرمایا ہے۔ بحیثیت ماں ، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں اعلیٰ و ارفع مقام سے روشناس کرایا ہے۔
ویسے تو اسلام نے عورت کو ہر لحاظ سے بلند مقام عطا فرمایا ہے لیکن عورت کو ماں کا درجہ دے کر اس کی عظمت میں چار چاند لگا دئیے ہیں۔ عورت ماں کے روپ میں مرد سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ اللّٰہ تعالٰی نے عورت کے قدموں میں جنت رکھ کر اسے عظیم ترین بنا دیا ہے۔
اسلام نے عورت کو بحیثیت بیوی بہت سے حقوق دیئے ہیں۔ اسلام بحیثیت بیوی عورت کے تمام حقوق کی نگہداشت کرتا ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور ظلم و تعدی سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کامل مومن وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہیں۔
اسلام میں عورت کو بحیثیت بہن و بیٹی جو بلند مقام عطا فرمایا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو ایک نہیں چار بیٹیوں کا باپ بنایا گیا تھا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب وہ آتیں تو ان کے لیے چادر بچھا دیتے اور ان کو "بضغة منى” یعنی میرے جگر کا ٹکڑا کہتے تھے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ لڑکیوں کا باپ ہونا مؤجب عار نہیں بلکہ مؤجب سعادت ہے۔ اللّٰہ تعالٰی جس سے خوش ہوتا ہے اس کے گھر اپنی رحمت بیٹی کے روپ میں بھیجتا ہے۔
آج کے زمانے میں بیٹیاں بیٹوں سے بڑھ کر اپنے والدین کا سہارا بنی ہوئی ہیں۔ ہر میدان میں کامیاب ہو کر اپنے والدین کا نام روشن کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی ہمیں بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
Twitter I’d @alifsheen_5