سپریم کورٹ ،ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل تھے،
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے دلائل شروع کئے، وکیل علی ظفر نے 1962 کے عدالتی ایکٹ کا حوالہ دیا،جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہہت اچھا فیصلہ ہے یہ ریویو سے متعلق تھا، بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں کہا کہ فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو اپنا پرانا فیصلہ ری اوپن کرنے میں بہت ہچکچاہٹ اور احتیاط برتنی چاہیے ،فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں وزڈم ہے وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کر رہے ہیں، آپ کی جانب سے اب تک تین پوائنٹ اٹھائے گئے ہیں، علی ظفرنے کہا کہ مقدمات کے حتمی ہونے کا تصور بڑا واضح ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مقدمات کا حتمی ہونا، درستگی اور اپیل کا تصور اہم ہے، ہمارا قانون کہتا ہے کہ اگر کسی فیصلے میں غلطی ہے تو اس کو درست کیا جا سکتا ہے ، علی ظفر نے کہا کہ فیصلہ قانون اور حقائق کے برخلاف ہوگا تو ہی درست کیا جا سکتا ہے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سماعت دانشمندی ہے جو قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کر رہے ہیں،عدالت دیکھ رہی ہے کہ کیا پارلیمنٹ قانون کے ذریعے نظر ثانی کو بڑھا سکتی ہے، آپ کی دلیل ہے کہ نظر ثانی کو اپیل میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، دوبارہ سماعت کا تصور اپیل کا ہے، علی ظفرنے کہا کہ آرٹیکل 184/3 حتمی احکامات کے لیے بنایا گیا ہے،جب 184/3 کی شرائط پوری ہو رہی ہوں تو عدالت حکم جاری کرتی ہے، اگر کسی کو آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق دیا جائے تو یہ ازخود نوٹس کے اختیارات کم کرنے کے مترادف ہے ،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ نظرثانی قانون کو وسیع کرسکتی ہے،آئین میں نظرثانی کے دائرہ اختیارکوبالکل واضح لکھا گیا ہے،وکیل نے کہا کہ میرا کیس ہی یہی ہے کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ خلاف آئین ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوجداری ریویو میں صرف نقص دور کیا جاتا ہے جبکہ سول میں اسکوپ بڑا ہے،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں نہیں بدلا جاسکتا،اگر نظرثانی میں اپیل کا حق دینا ہے تو آئینی ترمیم درکار ہوگی،نظرثانی کیس میں صرف نقائص کاجائزہ لیا جاتا ہے نئے شواہد بھی پیش نہیں ہوسکتے،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس کی نظر ثانی تک اس قانون کو محدود کر دیا گیا ہے، علی ظفر نے کہا کہ یہ قانون الیکشن کمیشن کی نظر ثانی پر اپلائی نہیں ہوتا، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ قانون پچھلے فیصلوں پر اپلائی ہو اور مستقبل کے کیسز پر بھی لیکن پنجاب الیکشن کیس پر نہ ہو، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین دائرہ اختیار میں کمی کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ آئینی ترمیم کے زریعے ہونا چاہیے ،جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس کے ذریعے ریویو کا حق دیا گیا ہے اس کا مطلب ہے کہ آئین اختیارات میں کمی کی اجازت تو دے رہا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی کے لیے عدالتی فیصلوں میں غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہوتی ہے ، کیا آئین سازوں کو نظر ثانی اور اپیل کا فرق معلوم تھا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارلیمان سب کچھ کر سکتی ہے لیکن آئینی ترمیم کے ذریعے، قانون سازی کے ذریعے نہیں ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی میں سماعت کا حق اور غلط قانون قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اپیل نہیں بنایا جا سکتا ،
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس ،علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے، سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل کو کل سنیں گے،
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کی استدعا منظور کرلی
سردار تنویر الیاس کی نااہلی ، غفلت ، غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری کھل کر سامنے آگئی
تحریک انصاف کی صوبائی رکن فرح کی آڈیو سامنے
عابد زبیری نے مبینہ آڈیو لیک کمیشن طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا
آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن نے کارروائی پبلک کرنے کا اعلان کر دیا