پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنماء مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جو سب سے پہلی اچھی چیز کی وہ یہ کہ انہوں نے اپنے ادارے کی غلطی کو تسلیم کیا اور تسلیم کیا کہ بھٹو کا جو قتل تھا وہ غلط تھا، سپریم کورٹ کا فیصلہ ٹھیک نہیں تھا۔ ماضی میں ڈکٹیٹرزکی آئین شکنی کو جو سپریم کورٹ تحفظ دیتی آئی، انہوں نے اس کے بارے میں بھی کہا کہ وہ غلط تھا۔ نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ تصحیح کا عمل تو شروع ہی اس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ فیض آباد دھرنا کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ اس ملک میں سویلین حکومتوں کو غیرمستحکم کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا جاتا رہا، آج جس کیس کی سماعت ہوئی اس کا تعلق اسی ایک چیز سے ہے جہاں ایک سویلین حکومت کو غیرمستحکم کرنے کیلئے یہ سارا سلسلہ چلا۔ پھر دھرنا کیس کے فیصلے میں قاضی فائز صاحب کو جو نتائج بھگتنے پڑے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
جبکہ انہوں نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے چند سال بعد اسی تنظیم نے ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش کی اور اس کو روکنے کے نتیجے میں ہمارے کئی پولیس کے سپاہی اور جوان شہید ہوئے، ’ان کے لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور پرتشدد طریقے سے اور پھر اس کے بعد ایک تصویر آئی، رات کو ہم نے دیکھی جو ایک دم سے ریلیز کی گئی، جس میں آرمی چیف کھڑے ہوئے تھے ایک جگہ اور ان کے ساتھ کچھ بزنس مین تھے، اور بتایا یہ گیا کہ ایک اور معاہدہ طے پاگیا، مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ قاضی صاحب نے اسی فیصلے پر آج کہا کہ اس فیصلے پر عمل کرلیا جاتا تو آگے یہ نہ ہوتا۔
مزید یہ بھی پڑھیں؛
روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں مزید کمی
پی ڈی ایم پر آرٹیکل 6،جنرل باجوہ کا احتساب
امریکی وزیرخارجہ بلینکن نے بجایا گٹار
اسرائیل کو تسلیم کرنے بارے امریکہ میں بھی سوالات ہوئے,نگران وزیر خارجہ
تاہم ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کبھی تو یہ طے کرنا پڑے گا کہ یہ ملک چلانا کس طرح ہے، ٹروتھ اینڈ ریکنسلیشن جن ممالک میں استعمال ہوا انہوں نے بہت بڑی قیمت ادا کی، وہاں کشت و خون کے دریا بہہ گئے، ہم کیوں چاہتے ہیں ہم کوئی بڑی قیمت چکا کر اس جگہ پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ ممالک جب وجود میں آتے ہیں تو وہ پہلے ہی ذمہ داریاں طے کرلیتے ہیں، ہمارا جب پہلا الیکشن ہوا اس وقت بھارت کی تین اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرچکی تھیں، ہم نے اپنے راستے کو درست کرنے کی کوشش کی تو اس کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔
جبکہ ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ کہنا تھا کہ گزشتہ دس سالوں میں ایکسٹینشن والے سلسلے نے ایک ایسی غیر مستحکم ساخت کھڑی کردی ہے کہ ہر دو سال بعد ایک سوال کھڑا ہوجاتا ہے، اس سوال کے نتیجے میں مسائل پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں اور پھر ایکسٹینشن ہونے یا نہ ہونے کے نتائج سامنے آتے ہیں علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ یہ بات عام ہے کہ ڈان لیکس صرف اس وجہ سے ہوا کہ راحیل شریف صاحب کو ایکسٹینشن چاہیے تھی، اس لیے وہ غیر مستحکم ماحول پیدا کیا گیا، اس لیے ہمیں یہ سلسلہ ختم کرنا ہے ہمیں قانون کو تبدیل کرنا ہے۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ہم اپنی پارٹیوں کو بتاتے رہے تھے کہ اگر ہم نے بیساکھیوں والا راستہ پکڑنا ہے تو عوام کی کیا ضرورت ہے، ہم جو باتیں کرتے تھے انہیں پسند نہیں کیا گیا اسی وجہ سے ہم مس فٹ ٹھہرے، ’کہا گیا کہ جناب آپ اپنا راستہ پکڑیے تو ہم استعفا دے کر باہر