غنی شاکر اور فقیر صابر تحریر: احسان الحق

0
68

اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے کچھ بندوں کو رزق دے کر آزماتے ہیں اور کچھ بندوں کو رزق کی تنگ دستی سے آزماتے ہیں. مال دار اور غنی بندے کو ہر حال میں شاکر ہونا چاہئے، یہ بہترین غنی ہے. اسی طرح فقیر اور تنگ دست بندے کو ہر حال میں صابر رہنا چاہئے، یہ بہترین فقیر ہے. ایسے شاکر "غنی” اور صابر "فقیر” کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں اجر عظیم ہے. اگر غنی ناشکری کرنے والا ہو تو ایسا مالدار بدتر مالدار ہے. بے صبری کرنے والا فقیر بدتر فقیر ہے.

ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے پوچھا کہ اے ابوذرؓ تمہارے خیال میں کثرت مال "مالداری” ہے؟ فرمایا کہ جی ہاں. دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ قلت مال "فقیری” ہے؟ آپ نے جواب دیا ہاں جی. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں،
"ابوذرؓ تمہارا جواب غلط ہے حقیقی مالدار اور غنی وہ ہے جو دل کا غنی ہو، جس کا نفس غنی ہو چاہے اس کے پاس مال کم ہو یا زیادہ. فقیر وہ ہے جس کا دل اور نفس فقیر ہو چاہے اس کے پاس بہت زیادہ مال ہو”.

دل کے غنی ہونے کا مطلب ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے راہ میں خرچ کرنے والا اور شاکر ہو. اپنے پاس موجود کم یا زیادہ مال میں سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خرچ کرے یہ حقیقی مالدار اور غنی ہے. اسی طرح مالدار آدمی ہو مگر دل کا فقیر ہو مطلب وہ کنجوس ہو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والا ہو اور ناشکری کرنے والا ہو ایسا بندہ حقیقی فقیر ہے. اسلام میں فقیری اور امیری دونوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور فقیری اور امیری کی مذمت بھی کی گئی ہے. مال کی کثرت سے ہی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور مستحقین پر خرچ کیا جا سکتا ہے جو کہ فقیری پر ترجیح کی وجہ ہے. بہترین مالدار وہ ہے جو شاکر بھی ہو.

پاکیزہ اور حلال بہت ہی عمدہ ہے اگر وہ نیک اور صالح بندے کے پاس ہو. وہ بندہ جو اس پاکیزہ اور حلال مال اور رزق کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے. مال و دولت آنے کے بعد اس کے دل میں غرور و تکبر پیدا نہ ہو. اکثر ہوتا یہ ہے کہ مال و دولت ملنے کے بعد انسان فرعون بن جاتا ہے. غیر شرعی اور غیر قانونی کاموں میں پیسے اڑاتا ہے. اگر مال کسی ایسے بندے کے پاس ہو جو اپنے مال کو ناجائز طریقوں یا ناجائز کاموں میں خرچ کرے، فضول خرچی کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے روک لے، ایسے مالدار کے لئے اس کا مال آخرت کے دن وبال جان بن جائے گا. ایسا فقیر جو بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر شرعی اور غیر قانونی طریقوں سے مال کمانے کی کوشش کرے یا اپنے عقائد اور منہج پر سمجھوتہ کرتے ہوئے غیراللہ کی مدد طلب کرے تو اس کے لئے بھی آخرت کے دن سزا مقرر ہے.

جب حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی توبہ قبول ہوئی تو کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہہ نے کہا میں اپنا سارا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا اے کعب سارا مال خرچ مت کرو، کچھ مال اپنے پاس رکھو. اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہہ سے فرمایا تھا کہ اے سعد اگر تم اپنے ورثاء کو غنی چھوڑ کر جائو تو یہ افضل ہے، تمہارے ورثا امیر ہوں تاکہ وہ لوگوں سے بھیک نہ مانگنے پر مجبور ہوں. اس سے یہ ثابت ہوا کہ غریب اور فقیر ہونے سے مالدار ہونا بہتر ہے.

اسلام میں مالدار ہونا یا مال اکٹھا کرنا کوئی گناہ نہیں، شرط یہ ہے کہ مال حلال طریقے سے کما کر حلال طریقے سے خرچ کیا جانا چاہئے. اس مال کو مستحقین کی مدد کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے. اسلام میں فقیر ہونا بھی کوئی عیب نہیں مگر شرط یہ ہے کہ بندہ صابر ہونا چاہئے. فقیر کو تنگ دستی سے تنگ آ کر کوئی غیرشرعی اور غیرقانونی کام نہیں کرنا چاہئے.
‎@mian_ihsaan

Leave a reply