گلگت بلتستان جسے 2009 سے قبل شمالی علاقہ جات یا ناردرن ایریاز کہااور لکھا جاتا تھا کو گورننس آرڈر 2009 کے نفاذ کے بعد گلگت بلتستان کے نام سے موسوم کیا گیا بنیادی طور پر یہ خطہ تنازعہ کشمیر کا اہم حصہ اور مسلہٕ کشمیر کا اہم فریق ہے 1947سے قبل گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا یہ خطہ مسلہٕ کشمیر سے منسلک ہونے کی وجہ سے براہ راست آٸین پاکستانيوں کا حصہ نہیں بن پایا ہے 1949 میں وفاقی حکومت نےمعاہدہ کراچی کی روشنی میں اس علاقے کا انتظام وانصرام براہ راست وفاقی حکومت نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور وفاقی حکومت نے 1971 تک اس خطے کو ایف سی آر کے قوانين کے تحت ریگولیٹ کرکے چلایا 1971 میں زولفقار علی بٹھو شہید کی سربراہی میں اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے ان علاقوں سےپہلی بار ایف سی آر کے کالے قوانین کا خاتمہ کرکے ابتدائی سیاسی اصلاحات نافذ کیٸں اور جمہوری اداروں کا قیام عمل میں لایا جاگیرداری نظام کا خاتمہ کرکے اس پسماندہ خطے کے باسیوں کو پہلی بار سیاسی بنیادوں پر ایمپاور کرنے کی طرف سفر کا آغاز کیاگیا اور اس خطے کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوٸے گندم سمیت دیگر بنیادی اشیإ پر سبسڈی کا آغاز کیا 1971 سے لے تادم تحریر اس حطے کو مختلف انتظامی اصلاحاتی پیکجز کے زریعے وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے تحت چلایا جارہا ہے اگرچہ 2009 میں سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت نےایک صدارتی حکم نامہ گورننس آرڈر 2009 کے زریعے پہلی بار اس خطے کو انتظامی طور پر صوبے کا درجہ دیا اور علاقے کو اس کے پرانے نام گلگت بلتستان سے موسوم کیااور گلگت بلتستان اسمبلی اور کونسل کے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن اس کے واضح آٸینی تشخص کا سوال معمہ ہی بنا رہا بعد ازاں مسلم لیگ ن کی حکومت میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں قاٸم کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گورننس آرڈر 2018 گلگت بلتستان نافذ کیاگیا جس پر عوامی حلقوں نےشدید ردعمل دیا اورشدید عوامی احتجاج اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تناظر میں گلگت بلتستان کے آٸینی تشخص پروفاقی سطح پر کام کو مزید بہتری کے لیےجاری رکھا گیا اب اس حوالے سے خوش آٸند خبریں آرہی ہیں کہ گلگت بلتستان کو عبوری طور پر صوبہ بنانے کے لیے وفاقی وزیرقانون کی سربراہی میں جو کام ہورہاتھا اس پر مبنی ایک ڈرافٹ وزیراعظم کو پیش کردیا گیا ہے جس پر تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور افہام و تفہيم کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کاجاٸے گا اور اس خطے کو آٸین پاکستانيوں میں ترمیم کرکے زراٸع کے مطابق عبوری طور پر صوبے کا درجہ دینے پر مقتدر حلقوں میں غور ہورہا ہے جو کہ خوش آٸند ہے عبوری طور پر صوبے کا درجہ ملنے کے بعد اس خطے کو قومی اسمبلی وسینٹ میں نماٸندگی حاصل ہوگی اوراس طرح تاریخ میں پہلی بارشاید گلگت بلتستان کے عوام کی بھی ان ایوانوں میں آواز سنائی دے گی گلگت بلتستان بار کونسل نے بھی اپنے ایک قرارداد کے زریعے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خطے کی پسماندگی اور دورآفتادگی کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی میں کم از کم نو نشستيں اور سینٹ آف پاکستانيوں میں دیگر صوبوں کے برابر نماٸندگی دی جاٸے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا داٸرہ کار گلگت بلتستان تک بڑھاکر یہاں پر سپریم کورٹ کا رجسٹری بینچ قاٸم کیا جاۓ ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے خواہشات اور مطالبات پر توجہ دیتے ہوئے گلگت بلتستان کے آیٸنی تشخص کے مسائل کو حل نکالا جاۓ اور گلگت بلتستان کے عوام کا بھی یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو صوبائی طرز پر دیگر صوبوں کی طرح کا نظام دیکر باقاعدہ آٸین پاکستان میں عبوری طور پر ترمیم کرکے تا تصفیہ مسلہ کشمیر آٸینی تحفظ فراہم کیا جاٸے اور قومی اسمبلی و سینٹ سمیت تمام قومی اداروں میں دیگر صوبوں کے طرز پرنماٸندگی دی جاٸے اگر مسلہٕ کشمیر کی وجہ سے کوٸی رکاوٹ و پیچیدگی درپیش ہے تو آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ قاٸم کرکے اس خطے کی عوام میں پاٸی جانے والی بے چینی و احساس محرومی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے
Twitter Handle @Srufaq.
Baaghi Digital Media Network | All Rights Reserved