سیدہ فاطمہ زاہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت. تحریر : سیدہ عطرت بتول نقوی

fatimah

علامہ اقبال نہ صرف ایک آفاقی شاعر تھے بلکہ وہ عظیم مفکر ، فلسفی ، صوفی ، قانون دان اور مصنف تھے پوری دنیا میں ان کا کلام پسند کرنے والے اور ان کے چاہنے والے موجود ہیں اور اقبالیات ایک وسیع موضوع بن چکا ہے وہ ہر دور کے شاعر ہیں پیغبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق میں سرشار تھے اور قرآن سے وابستگی نے ان کا اقبال مزید بلند کیا اردؤ شاعری کی طرح ان کی فارسی شاعری بھی لاجواب ہے لیکن فارسی عام زبان نہ ہونے کی وجہ سے ان کا یہ کلام زیادہ منظر عام پر نہیں آ تا

علامہ اقبال کی ایک شاہکار فارسی نظم جو ،، رموز بےخودی ،، میں موجود ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحب زادی فاطمہ زاہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو جناب سیدہ کی کتنی معرفتِ تھی وہ جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی گہرائی کو سمجھ گئے تھے کہ ،، فاطمہ بضعتہ منی ،، ( فاطمہ میرا ٹکڑا ہے ) اور یہ حدیث مبارکہ بھی کہ ،، فاطمہ سیدہ ۃ نساء عالمین ( فاطمہ سارے جہان کی عورتوں کی سردار ہے )

اقبال کہتے ہیں
مریم از یک نسبت عیسی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
( بی بی مریم سلام اللہ علیہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے بزرگ وبرتر ہیں جبکہ فاطمہ زاہرا تین نسبتوں سے بزرگ وعزیز ہیں آ پ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نور چشم ہیں جو اولین و آخرین عالم کے رہبر و امام ہیں
آ نکہ جان در پیکر گیتی دمید
روز گار تازہ آ ئین آ فرید
( وہی رحمت للعالمین جنہوں نے کائنات کے پیکر میں روح پھونک دی اور ایک تازہ دین سے معمور زمانے کی تخلیق فرمائی )
بانوے آ ن تاجدار ھل اتیٰ
مرتضیٰ مشکل کشا شیرِ خدا
( آ پ ھل اتیٰ کے تاجدار مرتضیٰ شیر خدا کی زوجہ معظمہ ہیں)

مادر آ ن مرکز پرکار عشق
مادر آ ن کاروان سالار عشق
( ان کی ماں ہیں جو عشق کا مرکزی نقطہ اور پرکار عشق ہیں اور ماں ہیں ان کی جو کاروان عشق کے سردار ہیں )

آ ن ادب پروردہ ء صبر ورضا
آ سیا گردان ولب قرآن سرا
( صبر ورضا کا یہ عالم تھا کہ چکی پیستی جاتی تھیں اور لبوں پر قرآن جاری رہتا)

بہر محتاجی دلش آ ن گونہ سوخت
با یہودی چادر خود را فروخت
ایک محتاج اور مسکین کی حالت پر ان کو اس قدر ترس آ یا کہ اپنی چادر یہودی کو بیچ ڈالی)

رشتہ آ ئین حق زنجیر پاست
پاس فرمان جناب مصطفیٰ است
(آ ئین حق سے رشتہ تعلیماتِ اِسلام اور رسول اللہ کا فرمان میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دیتا ہے)
ورنہ گرد تر بتش گردید می
سجدہ ہا بر خاک او پاشید می
( ورنہ میں آ پ کی تربت کے گرد طواف کرتا اور اس خاک پر سجدے کرتا )

علامہ اقبال کی اس نظم کے آ خری اشعار حیرت انگیز اور بے حد متاثر کن ہیں انہوں نے سیرت جناب سیدہ فاطمہ کا کتنا گہرا مطالعہ کیا تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ میرے پاؤں میں شریعت کی زنجیر نہ ہوتی تو میں ان کی قبر مبارک کا طواف کرتا اور سجدے کرتا ،یقننا جناب سیدہ فاطمہ زاہرا سلام اللہ علیہا ایسی ہی قدر و منزلت والی ہستی تھیں رسول اللہ ان کے آ نے پر کھڑے ہو جاتے تھے ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے تھے اور اپنی جگہ پر بٹھا لیتے تھے وہ شہر علم تھے علم نبوت کی رو سے جانتے تھے کہ ان کی بیٹی کے پیارے بیٹے اپنے نانا کے دین پر قربان ہونگے اور وہ کفار مکہ جو ان کو طعنے دیتے تھے کہ آ پ کا کوئی بیٹا نہیں ہے آ پ کی نسل ختم ہوجائے گی اللہ نے اپنے پیارے حبیب کی نسل ان کی بیٹی سے چلائی ،اس زمانے میں جب جاہل عرب بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹی کی قدر و منزلت فرمائی ان کو ہر طرح کے حقوق دینے بیٹی کے بچوں کو کندھے پر بٹھایا اور کہا حسن وحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ،مدینے کے عیسائی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے انکار کرتے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران میں فرمایا کہ
،، اے رسول یہ تم سے عیسیٰ کے بارے میں بات کرتے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم اپنی عورتوں کو لاتے ہیں تم اپنے نفسوں کو لاؤ اور ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور پھر عیسیٰ کے بارے میں مباہلہ کرتے ہیں اور پھر جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ،،
( آیت نمبر 61 ، پارہ تیسرا ، محل نزول مدینہ)

سورۃ آل عمران کی ان آ یات کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی حکم کے مطابق اپنے بیٹوں کے طور پر اپنے نواسوں حسن وحسین علیھم السلام اور فاطمہ زاہرا سلام اللہ علیھا اور حضرت علی علیہ السلام کو لے کر میدان مباہلہ میں نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنے گئے تھے ،فاطمہ زاہرا سلام اللہ علیہا کے بچوں نے بچپن میں ہی اپنے نانا جان کے ہمراہ توحید کی روشنی سے جہان کو منور کیا اور اپنی عالی مرتبت ماں کی تربیت سے ایک زمانے کو حریت وصداقت کا درس دیا

اقبال فرماتے ہیں
سیرت فرزند ہا از امات
جوہر صدق وصفا از امات
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوہ کامل بتول
( فرزندوں کوسیرت اور روش زندگی ماؤں سے ورثے میں ملتی ہے صدق وخلوص کا جوہر ماؤں سے ملتا ہے اور تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل بتول ہیں اور ماؤں کے لیے نمونہ کامل بتول ہیں)

( 3 جمادی الثانی جناب سیدہ فاطمہ زاہرا سلام اللہ علیہا کے یوم رحلت پر لکھا گیا مضمون)

Comments are closed.