بارہ سال تک اپنے خاندان سے بچھڑی رہنے والی شام سے تعلق رکھنے والی 57 سالہ عایدہ القادری المعروف’ام محمود‘ کا پہلی بار فریضہ حج کی ادائی کے لیے سعودی عرب پہنچنے پر شامی نوجوانوں کے ایک گروپ نے روایتی گیتوں اور تالیوں سے شاندار استقبال کیا۔
باغی ٹی وی : "العربیہ ڈاٹ نیٹ” کے مطابق حج کے لئے آئی خاتون نے بتایا کہ انہیں تقریباً 180 شامی عازمین کے علاوہ ایک مخیر شخص کے ذریعے حج کرنے کا موقع ملا جس نے ان کے حج کو اسپانسر کیا حج کے لیے میرا انتخاب میری کہانی کی بنیاد پر کیا گیا تھا –
سعودیہ عرب سمیت تمام خلیجی ممالک میں ذوالحج کا چاند نظرآ گیا۔
ام محمود نے بتایا کہ میں شامی حکومت کی حراست میں رہ چکی تھی۔ میرا بیٹا منحرف ہوگیا تھا جس کا اب کوئی اتا پتا نہیں اسے اٹھا لیا گیا تھا۔ اس کے زندہ یا مردہ کی کوئی خبر نہیں۔
خاتون نے بتایا کہ شامی فوج نے ان کے شوہر اور ایک بیٹے کو قتل کردیا تھااس کے سب سے بڑے بیٹے محمودکی عمر 25 سال ہے وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی مگر جب قیصر قانون کے تحت لیک ہونے والی شامی قیدیوں کی تصاویر سامنے آئیں تو 55 ہزار قیدیوں میں ان بیٹا بھی شامل تھا۔
برطانوی مسلمان حج کیلئے 11 ماہ پیدل سفرکرکےمکہ پہنچ گیا
ام محمود نے کہا کہ حج کے لئے حجاز مقدس آنے کی خوشی ناقابل بیان ہے میرے لیے حج ایک خواب تھا جو سچ ہوا۔ بارہ سال تک اپنے ملک میں بے گھر رہنے کے بعد آج میں اپنے بھائی اور بیٹوں سے مل پائی ہوں جو سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
ام محمود کے بھانجے علاء الدین القادری نے بتایا کہ وہ اپنی خالہ سے رابطے میں تھے لیکن جب ان کا سفر شروع ہوا اور انٹرنیٹ بھی مہنگ ہوگیا توان سے رابطہ منقطع ہوگیا تاہم ام محمود نے اپنے گروپ کے عازمین حج کے ذریعے مجھے تک معلومات پہنچائیں ام محمود سے ملاقات میں ہم سب کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوؤں نکل پڑے ان کے استقبال میں شامی نوجوانوں کے علاوہ سعودی شہری بھی شامل ہوگئے اور انہوں نے بھی ام محمود کی آمد پر تالیوں سے ان کا استقبال کیا۔