خبر: تبدیلی کے تین سال، غریب عوام کے لئے ظلم کی تین صدیاں، شہباز شریف۔
تبصرہ: اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے لیکن کیا جناب بتانا پسند کریں گے کہ اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟
کیا آپ نے اپنے تیس سالہ عہد سلطانی میں کوئی ایک ادارہ ایسا چھوڑا جو منافع دے رہا ہو؟ کیا کبھی آپ نے اتنا ٹیکس اکٹھا کیا جتنا خود کے لئے پیسے اور کک بیکس؟ میٹرو بس اور اونج ٹرین جیسے ذہر بھرے لقمے حکومت کے گلے میں ڈال کے چلے گئے جو نہ نگلے جا رہے ہیں نہ تھوکے جا رہے ہیں اور حکومت ہر سال اربوں روپے ڈال کے خالی بسیں بھی چلا رہی ہے اور ان کا قرض بھی دے رہی ہے۔ آپ لوگوں کے لئے ہوئے قرض چکانے کے لئے حکومت کے پاس مہنگائی اور ٹیکس لگانے کے علاوہ کیا راستہ تھا؟؟
لیکن آپ کو احساس پروگرام، کامیاب جوان پروگرام، بلین ٹری سونامی، کوئی بھوکا نہ سوئے، پناہ گاہیں اور لنگر خانے نظر نہیں آئیں گے جو غریب کا پیٹ پھرتے ہیں۔ تف ہے آپ کی سوچ پر۔
خبر: جسٹس قاضی فائز عیسی سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر بن گئے، اخباری ذرائع
تبصرہ: آپ کو بتاتے چلیں کہ موصوف پر اوقات (آمدن) سے زائد اثاثے بنانے کا کیس اور منی ٹریل پیش نہ کر سکنے کا ٹرائل سپریم جوڈیشل کونسل میں ہی چل رہا تھا، اب جبکہ موصوف خود بھی اس کونسل کا حصہ بن بیٹھے ہیں تو بھولی عوام کا اس ملک کے عدالتی نظام پہ اور بھی یقین مضبوط ہو گیا ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہو گیا کہ جیسی بلی کو دودھ کی رکھوالی سونپ دی گئی ہو۔ سب کہیں سبحان اللہ
خبر: ججوں اور بیوروکریٹس کو قرعہ اندازی سے ملنے والے پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ
تبصرہ: یقین نہیں آ رہا کہ ایسا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ سے سامنے آ رہا ہے اور اتنے حیران کن ریمارکس سن کے طبیعت حیران پریشان ہو گئی ہے۔ جج صاحب فرماتے ہیں کہ اس تقسیم میں "کرپشن اور جرائم” میں سزا پانے والے ججوں کو بھی پلاٹ ملے۔ چلیں آج اتنا تو سمجھ میں آیا کہ اس ملک کے منصف بھی راشی اور جرائم پیشہ ہیں۔ پھر یہاں انصاف کی امید لگانا کہاں کی دانشمندی ہوئی؟
خبر: سعودی عرب میں سکیورٹی اہلکار کے قاتل کا سر قلم، اخباری ذرائع
تبصرہ: جرائم کی روک تھام تب تک ممکن نہیں جب تک جزا و سزا کا نظام پوری طرح کاآمد نہ ہو۔ جب یہ خبر پڑھی تو میرے ذہن میں پاکستانی نظام انصاف گھعمنے لگا جہاں سینکڑوں لوگوں کے قتل میں ملوث عزیر بلوچ عدم ثبوت کی بنا پر رہائی پاتا جا رہا ہے۔ جہاں ایک سیاستدان دن دیہاڑے ڈیوٹی دیتے ایک سرکاری پولیس والے کو نشے کی حاکت میں اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیتا ہے لیکن عدالت اسے بھی ضمانت پہ رہا کر دیتی ہے۔ ایک امریکی دن دیاڑے تین پاکستانیوں کو گولی سے بھون دیتا ہے لیکن ہم "قوم کے وسیع تر مفاد میں” اسے ملک سے باہر بھیج دیتے ہیں۔ جہاں چند سیاستدان ملک کی جڑیں کھوکھلی کر ڈالتے لیکن عدالتیں انہیں چھٹی کے دن بھی ضمانتیں دیتی دکھائی دیتی ہیں۔
جناب من! جب تک بنیادی انصاف کا نظام بہتر نہیں ہوگا، آپ ایسے ہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔
اور اب افضل سراج صاحب کی ایک غزل:
اِدھر ہے آنکھ چوکهٹ پر، اُدھر ہیں کان آہٹ پر
لگی رہتی ہے سارا دن، یہ میری جان آہٹ پر
ترے آنے سے پہلے ہی، تجهے پہچان لیتا ہے
مہکنے خود ہی لگتا ہے، مرا دالان آہٹ پر
اسے کہنا کسی لمحے، وہاں کی بهی خبر لے لے
جہاں وہ بهول آیا ہے، کسی کے کان آہٹ پر
بہت مانوس ہیں تم سے، مرے گهر کی سبھی چیزیں
چہک اٹهتے ہیں پردے، کهڑکیاں، گلدان آہٹ پر
بڑی حسرت سے تکتے ہیں تمهاری راہ دن بهر یہ
لگے رہتے ہیں دروازے، دریچے، لان آہٹ پر
بنا سلوٹ کے بستر پر پڑی بے جان آنکهوں میں
چمک اٹهتے ہیں پل بهر میں کئی ارمان آہٹ پر
ڈیوڑهی، صحن، خلوت خانہ، پائیں باغ، بیٹھک تک
چہکتی پهرتی ہے گهر بهر میں اک مسکان آہٹ پر
کشن، فٹ میٹ، ٹیبل، کرسیاں، قالین، ترپائی
امڈ آتی ہے ہر شے میں انوکهی شان آہٹ پر
ہمہ تن گوش ہیں کمرے، سراپا شوق دروازے
کوئی دیکهے کہ ملتا ہے انبہیں کیا مان آہٹ پر
یہی ہے وقت آنے کا، بڑی بےتاب دهڑکن ہے
"نکلتی جا رہی ہے لمحہ لمحہ جان آہٹ پر”
ٹهٹهرتا رات دن افضل میں سُونے گهر میں رہتا ہوں
بهڑک اٹهتا ہے سینے میں اک آتش دان آہٹ پر
آخر میں آج کا شعر:
وہ مجھے روز بلاتا ہے تماشے کے لئے
روز میں خاک اڑاتا ہوا آ جاتا ہوں
@Being_Faani