ہم قوم کب بنیں گے؟؟؟ . تحریر: احمد فراز گبول

0
76

ایک موضوعِ بحث ہے جو کہ ہر جگہ زبانِ زد خاص و عام ہے کہ قوم کیا ہوتی ہے؟ قوم کن عناصر پہ مبنی ہوتی ہے؟ قوم کی بنیاد کیا ہے؟ یا ایک قوم کیسے بنتی ہے؟
گو کہ ان سوالات کے جوابات ہمارے پاس نہیں ہیں کیونکہ ہم ابھی تک ایک قوم نہیں بن سکے بلکہ ایک ریوڑ کی مانند ہانکے جا رہے ہیں۔ آج تک تو ہماری منزل کا تعین بھی نہیں ہو سکا بلکہ ہر چرواہا اپنی مرضی کی چراگاہ کے خواب اور لالچ دے کر ہانکتا رہتا ہے۔ کسی شخص نے دوسرے شخص کے بارے میں کہا تھا کہ "سائنس کہتی ہے کہ انسان پہلے بندر تھے پھر انسان بنے لیکن آپ تو ابھی تک بندر بھی نہیں بنے سوچو انسان کب بنو گے؟”

بالکل یہی حال کچھ ہمارا بھی ہے۔ ہم تو ابھی تک منظم ہجوم بھی نہیں بن پائے قوم کب بنیں گے۔ ہم میں سے ہر فرد کی اپنی ترجیحات ہیں، ہر فرد اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے ہے، ہر کسی کی اپنی پسند ناپسند ہے اور ہر فرد کی اپنی پسند کی "چراگاہ” ہے۔ کسی کا جھکاؤ "مشرق وسطیٰ” کی طرف ہے تو کوئی "مغرب” کی طرف بانہیں پھیلائے ہوئے۔ کسی کا رخ "مغربی پڑوسی” کی طرف ہے تو کوئی "سرخ ہاتھی” کی طرف کھنچا جلا رہا ہے۔ غرضیکہ ہر بندہ اپنی مرضی اور مستی میں مگن ہے۔ کسی کے بھی اغراض و مقاصد مشترک نہیں ہیں۔ اب ان حالات میں ہم کیسے اقوامِ عالم کا مقابلہ کریں گے؟ جس قوم کو ایسے حالات درپیش ہوں اسے تو اپنی بقا کی فکر ہونی چاہئے لیکن ہمیں یہ فکر ہے کہ دانش مر گیا تو کیا ہو گا؟ فرہاد اور ماہی مل بھی سکیں گے یا نہیں؟ زارا موسیٰ کی ہو گی یا نہیں؟

افسوس صد افسوس ہم نے اپنی حقیقی زندگی کو بھی ڈرامہ سیریل کی طرح "ڈرامہ باز” بنا لیا ہے۔
پاکستانیوں کو اس وقت ہوا اور پانی سے بھی زیادہ ضرورت تعمیرِ ملت کی ہے۔ ہم بجائے اپنی شناخت کی تعمیر میں سرکرداں ہونے کے دوسروں کے معاملات میں الجھنا بہت پسند کرتے ہیں۔ ہمارے اردگرد رونما ہونے والے جملہ واقعات میں ہم پہلا تجزیہ یہی پیش کرتے ہیں کہ زیادتی ہماری ریاست کی ہی ہو گی۔ ہم حقائق کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کا ڈراپ سین ہوا۔ ایک فرضی تصویر کو سفیر کی بیٹی بنا کر خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ افسوس کہ خود کو عوامی لیڈر کہنے والی سیاستدانوں نے بھی ریاستی مؤقف کی تائید نہ کی اور آزاد کشمیر کے الیکشن کی گہما گہمی میں صرف اور صرف سیاسی مفادات کے پیشِ نظر ریاست پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی اور اغوا ہوا ہی نہیں تھا۔ جس ملک کی عوام خارجہ معاملات میں بھی

اپنی ریاست کے بیانیے کو سپورٹ نہیں کر سکتی کیا وہ خود کو قوم کہہ سکتی ہے؟
محال است و محال است و محال است ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے ہومیوپیتھک نظریات کو پسِ پشت ڈال کر نظریۂ اسلام و پاکستان کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔ کیونکہ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں ایک قوم بننے کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کے تمام دشمن ایک پیج پہ آ چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک خوابِ خرگوش کے مزے میں محو ہیں۔
میرے پاکستانیو! اس سے پہلے کہ دشمن آپ کے ناخن نوچیں، خدارا اب ہوش کے ناخن لو۔ ہمیں ایک مضبوط اور منظم قوم بننا ہے۔ اپنے تابناک ماضی کی طرح ایک روشن مستقبل پیدا کرنا ہے۔ اگر ہمارا حال ہمارے "حال” والا ہی رہا تو ہمارا کوئی حال نہیں ہو گا۔ جب تک ہم اپنی "میں” کو نہیں مار لیتے تب تک بس بکریوں کا ریوڑ بن کر "میں میں” ہی کرتے رہیں گے۔

اس موقع پر سب سے اہم ذمہ داری ہمارے نوجوانوں کے کندھوں پہ ہے، جو آج کل رانجھے اور مجنوں بننے کے چکروں میں ہیں۔ ہر دوسرا نوجوان محبت میں ناکام اور زندگی سے تنگ نظر آتا ہے۔ کوئی بات کر لیں تو ایسے ایسے انمول فلسفے سننے کو ملتے ہیں کہ عقل بحرِ حیرت کی طلاطم خیز لہروں میں غرق ہو جاتی ہے۔ جس عمر میں بچے کھلونے ٹوٹنے پر روتے ہیں یہاں اس عمر کے بچے دل ٹوٹنے پہ نشے میں مگن ہیں۔ لیکن ہمیں آج تک اپنی قوم کے اس حال کا خیال نہیں آیا۔ کیونکہ ہم ابھی تک قوم بن ہی نہیں پائے۔ نوجوان ہی اس ملک کی وہ واحد طاقت ہیں جو اس ملک کو جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر روشنی اور عظمت کی بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔
دعا ہے کہ خدائے تعالیٰ ہمیں ایک قوم بننے کی توفیق دے اور ہم عظیم مستقبل کی حامل ایک مضبوط قوم اور طاقت ور ریاست بن سکیں۔
پاکستان پائندہ باد

@1nVi5ibL3_

Leave a reply