حملے کے بعد سیاسی پناہ کی آفر ہوتی ہے،صحافی کا قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی میں انکشاف

0
74
حملے کے بعد سیاسی پناہ کی آفر ہوتی ہے،صحافی کا قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی میں انکشاف #Baaghi

حملے کے بعد سیاسی پناہ کی آفر ہوتی ہے،صحافی کا قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی میں انکشاف

اسلام آباد(محمد اویس)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات نے صحافیوں پر حملوں اور کیسوں پر پیش رفت نہ ہونے پر شدید تشویش کااظہارکرتے ہوئے اگلے اجلاس میں وزیرداخلہ ،سیکرٹری داخلہ ،آئی جی اسلام آباد،ڈی جی ایف آئی اے ،چیرمین نادراکوکمیٹی میں طلب کرلیا،کمیٹی نے دھمکی دی کہ صحافیوں کے 6 کیسوں پر پیش رفت نہ ہوئی تو اگلے اجلاس کے بعد کمیٹی پارلیمنٹ کے باہر دھرنہ دے گی ۔کمیٹی نےصحافی عزیز میمن کے قتل کی تحقیقات دوبارہ کرنے کی ہدایت کی اور صحافی کے قتل کوخودکشی قراردینے والے پولیس افسر کیخلاف کارروائی کرنے کی سفارش کی ۔نئی جے آئی ٹی میں کے پی کے ، پنجاب اوروفاقی پولیس کاایک نمائندہ ہوجبکہ مقتول کے بھائی کوبھی اس میں شامل کیاجائے ۔ صحافیوں نے کمیٹی میں کہا کہ اسلام آباد میں صرف 6 صحافیوں کے کیس حل نہیں ہوئے باقی سب کے کیس حل ہوگئے اگر حملہ آور نہ پکڑے گئے تو مجھے پردوبارہ حملہ ہوگا میری مسلسل نگرانی ہورہی ہے، فواد چودھری سے درخواست کرتاہوں کہ ہماری توہین نہ کریں ہم سیاسی پناہ کے لیے ڈرامہ نہیں کرتے۔حملے کے بعد ہمیں مختلف ممالک نے سیاسی پناہ دینے کی آفر کی مگر ہم پاکستان سے نہیں جانا چاہتے ہیں ۔پارلیمان ہمارا تحفظ کرئے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کا اجلاس چیرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف کی سربراہی میں پیمرا ہیڈکواٹر اسلام آباد میں ہوا۔اجلاس میں رکن عثما ن خان تراکئی،ناصر خان موسی زائی،محمداکرام چیمہ،آفتاب جہانگیر،عاصمہ ندیم،کنول شووزب،مریم اورنگزیب،ماہزہ حمید،ذولفقار علی ، ناز بلوچ،عظمہ ریاض نے شرکت کی ۔جبکہ وزارت اطلاعات کی طرف سے سیکرٹری ،چیرمین پیمرا، سندھ پولیس اور اسلام آباد پولیس کے حکام نے شرکت کی جبکہ کمیٹی کی طرف سے مقتول صحافی عزیز میمن کے بھائی حفیظ میمن،سابق چیرمین پیمرا ابصار عالم، حامد میر،اسد طور،پی ایف یو جے کے صدرناصر ملک ودیگر کمیٹی میں آئے ۔چیرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف نے کہاکہ 4جولائی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے ۔ایسے دن ریاست کو کمزور کرتے ہیں ایسے دنوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کو قانون اور آئین کے مطابق چلایا جائے ۔آئین و قانون کے مطابق کام ہوتا تو ایسی چیزیں ایجنڈے میں شامل نہ ہوتی ۔حکومتی ارکان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میری گرفتاری پر اظہار یکجہتی کی اور کہاکہ ہماری حکومت ہے مگر اس کے باجود ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ۔مریم اورنگزیب نے کہاکہ جاوید لطیف نے آزادی اظہار کے لیے جنگ لڑی ہے ۔میرپور خاص میں ٹرانسمیٹر لگانا تھا اس کا کیا بنا؟ پی بی سی کامستقل سربراہ کیو ں نہیں  لگایا جارہاہے پی بی سی اور پی ٹی وی کا بورڈ ایک ہورہاہے تو ابھی تک اس پر کام کیونںنہیں ہورہاہے ۔ادارہ کاسربراہ نہیں ہے تو انضمام کیسے ہوگا ۔سیکرٹری وزارت اطلاعات ونشریات نے کمیٹی کوبتایاکہ ان دونوں اداروں کاانضمام کررہے ہیں ایکٹ میں بھی ترمیم کرنے جارہے ہیں ۔چیرمین کمیٹی جاوید لطیف نے کہاکہ آج کمیٹی کی میٹنگ اس لیے رکھی گئی تھی کہ کہ وزیر نے کہاتھا کہ وہ دستیاب ہوئے گے مگر اس کی باوجود وہ نہیں آئے ۔اگلی میٹنگ 15دن بعد کریں گے اس میں بھی بات کی جائے گی ۔4سال پہلے جو بات کی تھی آج بھی وہاں کھڑے ہیں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے ۔عثمان خان تراکئی نے کہاکہ کام ادارے نے کرنا ہوتا ہے وزیر تو تبدیل ہوتے رہتے ہیں بتایاجائے ادارے نے کام کیوں نہیں کیا۔ سیکرٹری وزارت نے کہاکہ پی بی سی کا سربراہ دو سال سے نہیں ہے ۔متعلقہ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 2012میں 18ملین روپے اس ٹرانسمیشن کو تبدیل کرنے کے لیے سندھ حکومت نے دیئے تھے مگر فنانس نے فنڈز نہیں استعمال کرنے دیئے کہ وفاقی صوبوں کے پیسے استعمال نہیں کر سکتا ہے ۔میرپور میں ریڈیو ٹرانسمیٹرپر کمیٹی ارکان الجھ پڑے ۔ناصر خان نے کہا کہ یہ 2012 سے مسئلہ تھا اس وقت سے اب تک کیوں کچھ نہیں کیا گیا ہماری حکومت اس پر کام کررہی ہے سابق وزیر اطلاعات بھی کمیٹی میں موجود ہیں ان سے پوچھیں کیوں یہ مسئلہ حل نہیں کیا گیا ۔ناز بلوچ نے کہاکہ اس لیے لیے سندھ حکومت نے پیسے دیئے نفیسہ شاہ نے اس مسئلے کو کمیٹی میں اٹھا یا کہ وہاں پر بھارتی ریڈیو کی نشریات لوگ سن رہے ہیں اس مسئلے کو حل کیا جائے پیسے کھا لیئے گئے ہیں۔ آفتاب جہانگیر نے کہاکہ ہماری حکومت اس پر کام شروع کررہی ہے ہم نے کوئی پیسے نہیں کھائے ہیں ان کی بھی حکومت تھی بتایا جائے انہوں نے کیا کیاہے ۔سیکرٹری نے کہاکہ سندھ حکومت کے پیسے استعمال نہیں کرسکتے ہیں یہ پیسے سندھ حکومت کو واپس کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے لینے سے انکار کردیا ہے کہ آپ ٹرانسمیٹرہی لگائیں ۔سندھ حکومت کے پیسے پنشنرز کو دے دیئے گئے جو استعمال نہیں ہونا چاہیے تھے ۔یہ منصوبہ بڑا ہے پیسے زیادہ چاہیے جس کی وجہ سے مسائل ہیں ریڈیو کا 80فیصد بجٹ تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے ٹرانسمیشن لگانے کا خرچ 300ملین روپے ہے ۔مریم اورنگزیب نے کہاکہ میں نے اپنے دو ر میں 28منصوبے بند کرکے ایف آئی اے کو بھیجے ہیں ان میں صرف کرپشن ہورہی تھی 53منصوبے دیگر بھی ہیں جہاں اضافی فنڈز استعمال ہوئے ہیں ۔میری کارکردگی دیکھنی ہے تو اس کے لیے الگ میٹنگ رکھنی ہوگی ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ جو سابقہ دور میں منصوبے بند کئے گئے اس کی تفصیل کمیٹی کودی جائے اس معاملے پر الگ میٹنگ کریں گے۔اس کے ساتھ کمیٹی نے حکام کومیرپور میں ٹرانسمیٹر لگانے کے لیے متعلقہ فورمز سے منظوری لے کر فورالگانے کی ہدایت کردی ۔

صوبہ سندھ میں قتل ہونے والے صحافی عزیز میمن کے حوالے سےسندھ پولیس حکام نے کمیٹی کوبریفنگ دی ۔پولیس حکام نے کمیٹی نے کو بتایا کہ یہ بہت چیلنجنگ کیس تھا ایف آئی آر میں کیمرہ مین نامزد تھا ۔ہم نے فرانزک کے بعد نزیر احمد ملزم کو پکڑا ۔مقتول کے ناخنوں سے ملزم کا ڈی این اے ملاتھا۔اس نے مزید لوگوں کے نام بتائے 6ملزموں کا چالان پیش ہوگیا ہے ۔ دوملزمان کو ابھی تک نہیں پکڑا جاسکاہے یہ دواب اشتہاری قرار دیئے گئے ہیں۔ان کوپکرنے کے لیے 27فون نمبروں کی نگرانی کررہے ہیںاور 10لاکھ سر کی قیمت مقرر کررہے ہیں۔8میں سے 6کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔پولیس کی جے آئی ٹی میں کیمرہ مین کو کلئیر کردیاہے ۔رکن کمیٹی ناز بلوچ نے کہاکہ عزیز میمن کت قتل کے معاملہ کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے بار بار اس کوسیاسی رنگ دیا جاتا ہے ۔ ناصر خان نے کہا کہ بتایا جائے کیوں صحافی کو قتل کیا گیا محرکات کیا تھے ۔پولیس حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ قاتل کہتے ہیں کہ ان کی خواتین سے ان کے تعلقات تھے اس وجہ سے ہم نے قتل کیا ہے ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ ملزمان کے بیان کو وجہ نہیں بتائی جاسکتی ہے آپ نے جو تحقیقات کی ہیں ان میں کیاسامنے آیا ہے جس پر پولیس نے کہاکہ جن خواتین کانام لیاجارہاہے انہوں نے اس بات کی نفی کی ہے ۔محمد اکرم چیمہ نے کہاکہ پولیس نے صحافی عزیز میمن کے قتل پر ایک کہانی بنادی ہے۔ کنول شوزب نے کہاکہ ایک سیاسی لانگ مارچ کے بعد مقتول صحافی نے ایک رپورٹ چلائی تھی جس کے بعد اس کو قتل کیا گیا ۔ محمد اکرم چیمہ نے کہاکہ لاش نہر میں پھینکی گئی غسل کے بعد ان کو دفن کیا گیا اس کے بعد کس طرح ناخن میں جلد آسکتی ہے یہ کہانی بنائی گئی ہے اصل ملزمان کوبچایاجارہاہے ۔پولیس کے موقف کے بعد کمیٹی نے پولیس کوکمیٹی روم سے دوسرے کمرے میں جانے کاکہا اور اس کے بعد صحافی عزیز میمن کے بھائی کو بولنے دیا۔ عزیر میمن کے لواحقین نے کمیٹی کو بتایا کہ لانگ مارچ کے بعد ایک ویڈیو بنائی تھی عزیز میمن کو اس خبر دینے کی وجہ سے قتل کیا گیا ۔ اس خبر کے بعد اس پر زمین تنگ کردی گئی ۔عزیز میمن نے قتل سے قبل انٹرویو میں کہا تھا کہ میری جان کو خطرہ ہے اور پیپلزپارٹی کے مقامی ورکر سے خطرہ ہے ۔جن کوپکڑا گیاہے وہ پیشہ ور قاتل ہیں اصل ماسٹر مائنڈ کوئی اور ہیں ۔میرے گھر پر فائرنگ ہوئی ہے بتایا نہیں گیا کہ اس قتل کی کس نے منصوبہ بندی کی ہے ۔ حامد میر نے کہاکہ عزیز میمن کو جب شہید کیا گیا اس سے پہلے وہ مجھ سے ملا قتل سے پہلے اس نے بلاول بھٹوسے اپیل بھی کی تھی ۔قتل کے بعد پولیس نے اس کو خود کشی قرار دیا تھا مائیک اور تار کا پندہ بنا کر قتل کیا گیا ۔سی ایم سندھ سے بات کی مگر پولیس نے پھر بھی کہاکہ یہ خودکشی ہے ۔پی ایف یو جے نے خاموشی سے تحقیقات کیں اور پولیس کا دعویٰ غلط ثابت ہوگیا ۔پیپلزپارٹی کے اعلیٰ قیادت سے بات کی ہے جب دباؤ آیا تو پولیس افسر کو تبدیل کیا تو لوگ گرفتار ہوئے ہیں اس وقت کا پولیس افسر بھی اس میں ملوث ہے جوا سکو خودکشی قراردے رہاتھا۔ ۔سندھ میں پولیس نے صحافیوں پر 50دہشتگردی کے کیس درج کئے ہوئے ہیں ۔سندھ پولیس کا صحافی کش رویہ ہے۔تھرپار کر میں ایک اور صحافی قتل کردیا گیا ہے جس نے خبر دی تھی جس نے وہاں پر ایک آدمی کوقتل کرنے کی خبردی تھی۔ چیرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف نے کہاکہ عزیز میمن کے ورثہ پولیس کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں ۔رکن کمیٹی صائمہ ندیم نے کہاکہ عزیز میمن کے لواحقین کو تحفظ دینا چاہیے ۔کنول شوزب نے کہاکہ اس قتل کی صحیح تحقیقات نہیں ہورہی ہیں ۔تمام صحافیوں کی حفاظت ہمارا فرض ہے ۔ پولیس تحقیقات کو مسترد کرتی ہوں ۔مریم اورنگزیب نے کہاکہ عزیز میمن کے قتل کو ٹیسٹ کیس بنانا چاہیے صحافیوں کے حفاظت کے قانون نہیں ہے اس لیے اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں ۔پولیس رپورٹ ایک مذاق ہےدوسال ہوگئے ہیںمگر کیس تو ابھی شروع نہیں ہوا ہے ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ دو سال میں کیس شروع ہی نہیں ہوسکا ہے جوائنٹ انویسٹی گیشن ہونی چاہیے ۔کے پی کے ،پنجاب یا وفاق سے ایک ٹیم سندھ پولیس کے ساتھ کام کرے اور جس پولیس افسرنے اس کو خودکشی قرار دیا ہے اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے ۔ عزیز میمن کے قتل کی تحقیقات دوبارہ ہونی چاہیے ان کے بھائی حفیظ میمن کو جے آئی ٹی میں شامل ہونا چاہیے جے آئی ٹی میں کے پی کے، پنجاب اور وفاق کا ایک نمائندہ شامل ہو اور مدعی کو رینجرز کے ذریعے تحفظ دیا جائے ۔یہ جے آئی ٹی اس وقت تک قائم رہےگی جب تک کیس کا فیصلہ یا انویسٹی گیشن مکمل نہیں ہوجاتی ہیں۔

ابصار عالم پر حملے کے حوالے سے اسلام آبادپولیس حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ ابصار عالم 20اپریل کو حملہ ہواتھا تھانہ شالیمار میں کیس رجسٹرڈ ہوا ہے ۔ فوٹیج ابصار عالم نے دی نادرا کو فوٹیج بھیجی تاکہ چہرہ پہنچانا جائے ۔علاقے کی جیو فینسگ کی کچھ مشکوک نمبروں کو آئی بی بھیجا ہے ۔تمام اداروں جن کو چیزیں بھیجی ہیں ان کو دوبارہ یاددہانی کا لیٹر بھیج دیا ہے ۔پولیس سپیشل برانچ سی ٹی ڈی کے حکام کو اس کیس پر لگادیا ہے۔چیرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف نے پولیس کی کارکردگی پر برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ملزمان تک پہنچ گئے ہیں کہ نہیں یہ کارروائی کہاں پہنچی ہے؟پولیس نے کہاکہ ابصار عالم کو ٹارگٹ کیا گیا ہے ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ میں ابصار عالم کی جرت کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ہماری بدنصیبی ہے کہ اسلام آباد میں اس طرح کے واقعات ہورہے ہیں ۔احمد نورانی، اسد طور اور باقی صحافیوں پر حملے ہورہے ہیں ابھی تک کیوں پتہ نہیں چل رہا کہ کون حملے کررہاہے ۔ہم نے آئی جی اسلام آبادکو کمیٹی میں بلایا تھا مگر وہ نہیں آئے اب تک ایک کیس میں بھی نتیجے پر نہیں پہنچا ہے اگر کسی ایک میں بھی نتیجے پر پہنچ جاتے تو یہ کیس نہ ہوتے ۔کیا تفتیش اس وقت تک جاری رہے گی جب کوئی اور واقع نہیں ہوتا ہے بتایا جائے اس واقع کاکون ذمہ دار ہے ۔پولیس نے اب تک کیا کیا ہے اگر اسلام آباد میں ملزم تک نہیں پہنچ سکتے تو ہاتھ کھڑے کریں جو ادارہ آپ کی مدد نہیں کررہاہے تووہ کمیٹی کو بتائیں ۔پولیس نے کہاکہ ہم کوشش کرسکتے ہیں اگر کوششوں میں کمی ہے تو ہم اس کا جواب دے ہیں ن۔رکن کمیٹی اصر خان نے کہاکہ یہ پولیس کی ناکامی ہے کہ اس طرح کے کیس حل نہیں ہو رہے ہیں ۔محمد اکرم نے کہاکہ صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کا نہیں پکڑا جاسکتا ہے تو عام لوگوں کا کیا ہوگا ۔چیرمین نے کہاکہ صحافی معاشرے کی آواز ہوتے ہیں صحافی جانتے ہیں کہ جن کے خلاف لکھ اور بول رہے ہیں وہ کتنے طاقتور ہیں مگر اس کے باوجود وہ نہیں رکھتے ہیں ۔اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحفظ فراہم کریں ۔صحافیوں پر حملے سے پہلے سب کو معلوم ہوتا ہے کہ ان پر حملہ ہوگا ۔اگر آپ کو معلوم نہیں ہے کہ کس نے حملہ کیا ہے تو آپ نااہل ہیں آپ میںجرات نہیں ہے کہ ان لوگوں کانام لیا جائے ۔پولیس حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ پولیس کو نہیں پتہ کہ ابصار عالم پر کس نے حملہ کیا محدود وسائل میں کام کررہے ہیں انویسٹی گیشن کررہے ہیں۔ چیرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم نے اس کیس کو نہیں چھوڑنا ہے عوام کو بتائیں گے کہ ان کو زخمی کون کرتا ہے اور مارتا کون ہے ۔عزیز میمن کے کیس کو بھی منتقی انجام تک پہنچائیں گے ۔پی ایف یو جے کے صدرناصر ملک نے کہاکہ کیا پولیس کیسی اور ایجنسی پر بھی شک کررہی ہے بتایاجائے کہ مطیع اللہ جان کے کیس میں کیمرے کیوں بند تھے ۔پولیس حکام نے جواب دیاکہ ابصار عالم نے جو بیان دیا ہے اس کے مطابق چل رہے ہیں ۔ اسلام آباد میں 18سو کیمرے لگائے گئے ہیں جن میں سے کچھ نہ کچھ خراب ہوتے ہیں اور ان کو ٹھیک کیا جاتا ہے ۔ابصار عالم نےکمیٹی کو بتایاکہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے کمیٹی میں بلایا ہے میں کمیٹی میں نہیں آنا چاہتا تھا ۔میں آج پارلیمنٹ سے شکوہ کرنا چاہتا ہوں۔ 1990سے پارلیمنٹ میں رپورٹنگ کرتا ہوں 27سال ڈائریکٹ ٹیکس بھی دیا ہے ۔ایک شہری کے طور پر شکوہ کررہا ہوں کہ آپ ہمارے تحفظ کرنے میں ناکام ہوئے ہیں میں کہوں گا کہ ہمارے حقوق کا تحفظ کریں پارلیمان کو مقدم مانتا ہوں اس کے علاوہ کسی کو نہیں کہوں گا اور آپ ذیلی اداروں سے پوچھیں کہ وہ کیا کررہے ہیں ۔انسانی حقوق کی کمیٹی میں پولیس نے بتایاکہ اسلام آباد میں صحافیوں کہ کیس اب تک حل نہیں ہوسکے ہیں ۔ فیٹف میں بھی یہ بات نوٹ ہوئی ہے صرف صحافیوں کے کیسوں کا نہیں پتہ چلتا ہے ۔میرے کیس کو دس ہفتے ہوگئے ہیں کچھ بھی نہیں ہوا پنجاب پولیس نے لاہور دھماکہ کے بعد 24گھنٹوں میں سب کو پکڑا ۔میں نے ایک فوٹیج دی جو گھر کی راکھی کررہا تھا وہ اس میں ملوث ہے ۔ موٹرسائیکل کی فوٹیج ہے ۔کالے کپڑے پہنا ہوا شخص کون ہے جس نے حملہ کیا ہے وہ کون ہے کیمرے کی فوٹیج کے بعد میں کیا بتاؤں ۔اگر یہ حملہ آور نہ پکڑے گئے تو دوبارہ حملہ ہوگا اور اس میں کون ذمہ دار ہوگا ۔آئینی حقوق کے لیے لڑوں گا میری مسلسل نگرانی ہورہی ہے ۔نادرا کے چیرمین کو بلائیں جیوفینسگ کے ذمہ دار کو بلائیں کہ کیوں حل نہیں ہورہاہے ۔ فواد چودھری سے درخواست کرتاہوں کہ ہماری توہین نہ کریں ۔ میرے لیے دوسرے ملکوں میں جانا آسان ہے ہم امیگریشن کے لیے نہیں کررہے ہیں وہ ملزم کے وکیل نہ بنیں وہ کہتے ہیں تو ہمیں تکلیف ہوتی ہے اگر کچھ نہیں کرسکتے تو زخموں پر نمک نہ چھڑکیں ۔ہمارے بچے دوسرے ملک نہیں جانا چاہتے ہیں حملے کے بعد تین ممالک نے آفر کی کہ آپ آئیں اگر آپ جانا چاہتے ہیں ہم آپ کو سیاسی پناہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ہم اسی مٹی سے ہیں میرا پارلیمنٹ پر حق ہے کہ وہ ہمارےلیے کچھ نہیں کرسکتے تو زخم پر نمک نہ چھڑکیں ۔صحافی کے خلاف کسی کو شکایت ہے تو اس کے لیے ادارے ہیں جہاں شکایت کی جاسکتی ہے مگر کسی کو ختم کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔اداروں نے لاہور واقع میں پرانی فوٹیج بھی دیکھی ہے کہ کون ریکی کررہاہے مگر میرے واقع میں انہوں نے کچھ نہیں کیا ہے ۔اسلام آباد میں صرف 6صحافیوں کے کیس حل نہیں ہوئے ۔باقی سب کے کیس حل ہوگئے ۔یہ چند لوگوں کی شکار گاہ نہیں ہے 22کڑور عوام کا ملک ہے ۔یہ کیس حل ہونا چاہیے۔چیرمین کمیٹی میاں جاوید لطیف نے کہاکہ ارکان پارلیمان کو بولنے کا حق نہیں صحافی کو لکھنے اور بولنے کی اجازت نہیں ہے ۔یہ افسوس ہے پاکستان کے جغرافیہ کو تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے اس کو روکا جائے ۔اگر صحافیوں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اگلے اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کے باہر دھرنہ دیں گے صرف صحافیوں کے کیس کیوں حل نہیں ہوئے اس کی وجہ سے ہمارا شک یقین میں بدل رہاہے کہ معاملات کچھ اور ہیں ۔اس کیس کی روایتی طریقہ سے تحقیقات نہ کریں تاکہ آئندہ دوبارہ واقع نہ ہو۔یہ کسی کا ذاتی ایشو نہیں ہے یہ پوری قوم کا ایشو ہے ۔ہم صبح اس پر ایجنڈے پر میٹنگ دوبارہ رکھتے ہیں کل آئی جی خود تشریف لائیں سیکرٹری داخلہ بھی کمیٹی میں آئیں اور بتائیں کہ اسد طور کیس میں کتنا قریب آگئے ہیں اور ابصار عالم کے کیس میں کتنا قریب آگئے ہیں۔

صحافی اسد طور پر حملے کے حوالے سے اسلام آباد پولیس حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ سی سی ٹی وی فوٹیج نادار کو بھیج دی ہے مگر ابھی تک رزلٹ نہیں آیا ایک ماہ سے زائد ہوگیا ہے مگر جواب نہیں آیا ۔دو یاددہانی کے خط بھی لکھے ہیں ایف آئی اے کو بھی لکھ دیا ہے کوئی رزلٹ نہیں ہے ۔اس کیس میں جواب نہیں آیا ہے ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ لاہور واقع کا رزلٹ اگلے دن آجاتا ہے مگر اس کا نہیں آرہاہےجس پر چیرمین نادرا کو اگلے اجلاس میں طلب کرلیا ہے ۔جیوفینسگ کا بھی جواب نہیں ہے جس پر ایف آئی اے کے ڈی جی کو بھی کمیٹی میں طلب کرلیا گیا ۔اسد طور نے کہاکہ میرا ایمان منتخب نمائندوں پر ہے ۔میرے کیس میں فنگر پرنٹس بھی بھیجے ہیں اور فنگر پرنٹس فرانزک والوں نے کہاکہ یہ فنگر پرنٹس بہت واضح ہیں اور اس سے شناخت ہوسکتی ہے ۔وزیرداخلہ شیخ رشید نے کہاکہ ہم ان لوگوں کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔ وزیر داخلہ غلط بیانی کریں گے تو مجھے کون انصاف دے گا وزیر اطلاعات نے کہاکہ صحافی سیاسی پناہ کے لیے یہ کرتے ہیں ہمیں سیاسی پناہ لینے کی خواہش نہیں ہے ۔وزیر اطلاعات نے کہاکہ صحافیوں پر حملے کے حوالے سے بات کرنا انٹرنیشنل ایجنڈا ہے ۔پولیس والے جیوفینسگ کرنے کے بجائے وہ میرے کال ڈیٹا نکال کر مجھے سے پوچھ رہے ہیں ۔ابھی تک کسی آئی ایس آئی والے کا بھی بلاکر بات کی ہے ۔ہمیں مجبور کیا جارہاہے کہ ہم ملک سے باہر چلے جائیں ۔ کہا گیا کہ یہ ذاتی مسئلہ ہے اگر ایسا ہے تو بندوں تک پہنچان اور آسان ہوجاتا ۔ میرا یوٹیوب چینل ہے اس پر رپورٹ کرتا ہوں جو غلط کرتے ہیں اس پر رپورٹ کرتا ہوں عید سے دو ہفتے پہلے بات پہنچائی گئ کہ عید کے بعد آپ کو فکس کیا جائے گا ۔ انٹی اسٹیبلشمنٹ بات کرتا ہوں ۔اپنے شعبے کے لوگوں سے مجھے بتایا گیا تھا کہ عید کے بعد آپ کو فکس کیا جائے گا ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ اداروں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے اس کو سامنے لانا کوئی جرم نہیں ہے ابصار عالم اسد طور، مطیع اللہ جان یا دیگر کیس ہوں یہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے ۔ یہ کیس کیوں منطقی انجام تک نہیں پہنچتے ہیں ۔اگر ایسا ہواتو ساری کمیٹی اسمبلی کے باہر احتجاج پر بیٹھے گی ۔اسد طور کے معاملے پر وزیر داخلہ کمیٹی میں آئیں اور بتائیں کتنا قریب پہنچ گئے ہیں ۔اگر ابصار عالم کا مجرم میں ہوں تو بے نقاب کیوں نہیں ہوسکتا ۔جو فیصلے کئے ہیں اس پر عمل کرائیں گے۔ ناز بلوچ نے کہاکہ وفاقی دارالحکومت میں اس طرح کے حملے نارمل نہیں ہے مطیع اللہ جان کے معاملے پر میٹنگ ہوتی تھیں مگر اس کے باوجود کوئی حل نہیں نکلا ۔وزیر اطلاعات کی طرف سے جوبیان آیاہے یہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ہم چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہواور الزامات ہٹیں ۔کوئی ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا ۔اس کیس پر تیز رفتار ی سے کام کیا جائے ۔ صائمہ ندیم نے کہاکہابصارعالم نے کہاکہ ان کو حملے کے بعد تین اور طور صاحب نے ایک ملک سے ان کو سیاسی پناہ کی آفر ہوئی ہے ہمیں اس اینگل پر بھی تحقیق کرنی چاہیے کیا ایسا تو نہیں ہے کہ وہ پہلے خود حملہ کراتے ہیں اور بعد میں سیاسی پناہ کی آفر کردیتے ہیں۔۔ابصار عالم نے کہاکہ تین یورپی ممالک نے مجھے سیاسی پناہ کی آفر کی ہمیں دنیا جانتی ہے ہم عالمی اداروں میں لکھتے ہیں ہم پاکستان کا اثاثہ ہیں۔ہم پر حملہ ہوتا ہے تو دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے جو حملہ کرتے ہیں ان کو بھی سمجھاتے ہیں۔ سازشی نظریات کو بنایا جاتا ہے میرے حملے کے ماسٹر مائنڈ کو پکڑا جائے اس سے ملک اور اداروں کی عزت بنے گی ۔ جیوفینسگ کی رپورٹ میں اس لیے تاخیر ہوتی ہے کہ شوائد کو ضائع کردیا جائے ۔چیرمین نے کہاکہ اگر عالمی ساز ہے تو اس کو بھی بے نقاب ہونا چاہیے ۔ کنول شوزب نے کہاکہ ابصار عالم سمیت سب کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے پولیس اپنا کام کرے ۔اسد طور ہماری عزتوں کی دھجیاں نہ اڑائیں ۔ یہ کچھ زیادہ ہی ان سینسر جاتے ہیں۔ بیلو دا بیلٹ نہ جائیں ۔معاشرے کے لائن کے مطابق سینسر کیا کریں ہمیں ان کی زندگیوں کا احساس ہے ایسا ممالک ہیں جو اس طرح کے چیزوں کو اٹھاتے ہیں۔ عزیز میمن اور اجےلال وانی کو سیاسی پناہ کیوں نہیں دی جاتی ہے جبکہ اسلام آباد کے صحافیوں کو آفر کردیا جاتا ہے اس کے باوجود کہ ان کاتعلق اقلیت سے ہے اور صحافی بھی ہیں ۔ادارے کو بدنام نہیں کرنا چاہیے ۔قانون سازی بھی ہونی چاہیے ۔

چیرمین کمیٹی نے کہاکہ اسد طور اگرکسی کو ٹارگٹ کرتے ہیں توان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کچھ یوٹیوبر ایسے بولتے ہیں کہ بندہ خود پریشان ہوجاتا ہے کہ شائد میں نے یہ سب کیا بھی ہواہو ۔یوٹیوب پر عمران خان نے میری گرفتاری کو 1978سے اٹھایا اورثابت کیاکہ یہ پکے وہ ہیں ان کو پھانسی لگائی جائے ۔مریم اورنگریب نے کہاکہ 31کیس ایک سال میں صحافیوں کے رجسٹرڈ ہوئے ہیں ۔اس کو دیکھنا ہوگا اسلام آباد صحافیوں کے لیے محفوظ شہر نہیں ہے ۔ ایف آئی اے ندیم ملک کو نوٹس دے دیتا ہے ایف آئی اے پولیس کو کیوں جواب نہیں دیتا ہے ۔رپورٹر آوٹ باڈر کی رپورٹ آگئی ہے اور اس میںوزیراعظم عمران خان کا نام آیا ہے ۔جیوفیبسنگ کی رپورٹ کیوں نہیں آتی ہے ۔آئی جی اسلام آباد کیوں کمیٹی میں نہیں آئے ۔اس مسئلے کو جلد حل کیا جائے ۔اس سےپاکستان بدنام ہورہاہے ۔اگر پارلیمنٹ صحافیوں کا تحفظ نہیں کرسکتا ہے تو کون کرے گا ۔ چیرمین کمیٹی نے کہاکہ حامد میر نے بہت ہمت کی حملے کے بعد کہ اپنے پر بات کے بجائے دیگر صحافیوں کی بات کرتا ہے ۔حامد میر پر مقدمات بنتے ہیں۔چیف ایگزیکٹو کا اس معاملے پر نوٹس لینا چاہیے ۔کان بند کرنے سے مسائل بڑھیں گے ۔مگر اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ بھگتنا پڑتا ہے تو جرات سے بھگتنا چاہیے اور ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے ۔

صحافی حامد میر پر ایف آئی آر کے حوالے سے حامد میر نے کمیٹی کوبتایاکہ عزیز میمن کے ساتھ کھڑے ہونے پر آپ(کمیٹی ) کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ عزیز میمن اور اجے لال وانی پر بین الاقوامی صحافی تنظیموں نے مذمت کی ہے ۔عزیز میمن کا کیس صحیح طرح چلایا ہے۔ ،صحافیوںپر ہر دور میں حملے ہوئے ۔میری گاڑی کے نیچے بم لگاتو احسان اللہ احسان نے کہاتھا کہ میں نے بم لگایا تھا ۔تھانہ گولڑہ کےاس وقت کے انویسٹی گیشن افسر طاہر عالم جو بعد میں آئی جی بھی بنے تھے اس کو کمیٹی میں بلائیں اور ان سے پوچھیں کہ کس نے بم لگایا تھا اگر وہ نہیں بتاتے تو میں بتادوں گا یہ وہی بندہ تھا جس نے رانا ثناء اللہ کی پھنٹی لگائی اس نے ہی بم لگایا ۔اسد طور پر3نہیں 4لوگوں نے حملہ کیا ہے بندہ پتہ چل گیا مگر ریڈ کے دوران پنڈی میں وہ نہیں پکڑا گیا اور ڈی جی ایف آئی اے تبدیل ہو گیا مجھے ویڈیو بھی دیکھائی گئی کہ آپ خاموش ہوجائیں وہ بس پکڑا جائے گا۔میرے خلاف 6مختلف شہروں میں غداری کی درخواستیں دی گئیں ہیں گوجرانوالہ میں عاصمہ اور میرے اوپر ایف آئی آر کاٹی گئی ہے ۔ جس وکیل نے حاصل بزنجو پر بھی مقدمہ کیا ہے اس وہی اس کیس کاوکیل ہے جبکہ مدعی ایک اخبار کامالک ہے جس کے اخبار کانام مخلوق ہے ۔ابصار عالم نے کہاکہ میرے خلاف بھی غداری کا مقدمات ہوئے ہیں ۔ماہزہ حمید نے کہاکہ مطیع اللہ جان نے مجھے ہر الزام لگایا گیا ۔مگر میرا موقف نہیں لیا گیا ہماری عزت خراب کی گئی ہے ۔ حامد میر نے کہاکہ جو پاکستان پر نہیں لکھ سکتے وہ اگر باہر لکھیں تو غدار کہا جاتا ہے اس اخبار میں وزیراعظم بھی لکھتے ہیں ہارڈ ٹاک والے مجھے سے بھی رابطہ کررہے ہیں کہ آپ موقف دیں کمیٹی بتائے کہ میں دوں کہ نہ دوں کیوں کہ وہاں اپنا دفاع کروں گا ۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ اگلے اجلا س میں وزیراطلاعات اس حوالے سے وضاحت کریں گے اس کے بعد آپ بھی بات کریں اس وقت تک روک جائیں

Leave a reply