‏ہماری پہچان اخلاق حسنہ . تحریر، ڈاکٹر حمزہ احمد صدیقی

‏ہماری پہچان اخلاق حسنہ . تحریر، ڈاکٹر حمزہ احمد صدیقی

اخلاق ’’خلق‘‘ کی جمع ہے، جس کے معنیٰ خصلت، عادت اور طبیعت کے ہیں۔ اصطلاح میں اخلاق سے مراد وہ خصائل و عادات ہیں جو انسان سے روز مرہ اور مسلسل سرزد ہوتے رہتے ہیں اور یہی عادات و خصائل رفتہ رفتہ انسانی طبیعت کا جزو بن کر رہ جاتے ہیں اور اخلاق انسانی رویے کا نام ہے، دنیا کا کوئی ایک مذہب ایسا نہیں جو اخلاقی قدروں کی تعلیم نہ دیتا ہو۔

اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور تمام بنی نوع انسان کی فلاح اور کامرانی کا علم بردار ہےاور اسلام میں اخلاق سے مراد وہ "اخلاق حسنہ "ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح اور اصلاح کے لیے انسانیت کو عطا کیے گئے۔

قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر اخلاق کا درس دیا گیا ہے جو اس قدر حکیمانہ اور فلسفیانہ ہے جو دنیا کے کسی مذہبی کتاب میں نہیں ملتا۔

’’اور جب تم کو کوئی دعا دے تو تم اس سے بہتر لفظوں سے دعا دوبے شک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔‘‘ (سورہ النساء آیت 86)

دنیا میں انسان کی اولین حیثیت ایک فرد کی سی ہے اور افراد کے مجموعے سے معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔ اگر دنیا میں موجود تمام انسان اپنی اصلاح کرلیں، یعنی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو وہ معاشرہ یقیناً درست اور صالح کہلائے گا،یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ کہلائے گا

شریعت اسلامیہ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اخلاق نفس کی وہ حالات ِ راسخہ ہیں جن سے اچھے یا برے افعال صادر ہوں بغیر کسی غورو فکر کے۔اسلام کی اخلاقی تعلیمات اعلیٰ ترین ہیں۔اعلیٰ اخلاق کے بغیر انسان نا مکمل ہے،جس طرح پھول رنگ و بو کے بغیر بے کار ہے ، اسی طرح انسان بغیر اخلاق کے بت کے سوا کچھ نہیں۔ اسلیے اچھائی یا برائی کی وہ عادت جو انسان کے اندرراسخ ہو چکی ہو اور قصط و بلا صادر ہوتے رہتے ہوں، یا یوں کہہ لیں کہ آدمی کی طبیعت میں جو بات بیٹھ چکی ہو بلا تکلف اس کا صدور ہوتا ہو وہ اخلاق ہے۔

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز

جو خوش خلق ہو اس سے خوش خلقی صادر ہوگی۔ ایسے ہی جو بدخلق ہوگا اس سے بدخلقی صادر ہو گی۔ مگر یہ کہ اسے اخلاق حسنہ کے اظہار کے لیے تکلیف اٹھانی پڑے تب اچھی بات کہہ سکے۔
حضرت آدم ؑ سے لے حضور نبی کریمﷺ تک جتنے بھی نبی اور پیغمبر تشریف لائے، جتنے بھی پیشوا، ہادی اور مبلغ ہوئے، وہ سب اخلاقیات کی تبلیغ کرتے رہے ہیں مگر اخلاق کا جو ہمہ گیر درس اسلام نے دیاہے دیگر مذاہب اس سے خالی ہیں۔انسانی زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی قدروں کی کارفرمائی نظر آتی ہے

حدیث مبارکہ میں اخلاق حسنہ کا ذکر کچھ ان الفاظ میں آیا ہے کہ قیامت کے دن مومن کے میزان میں سب سے بھاری جو چیز رکھی جائے گی وہ خلق حسنہ ہے

کچھ اخلاق ایسے ہیں جو میزان میں بھاری ہوتے ہیں اور بہت سارے برے اخلاق ایسے ہیں جونیکیوں کاثواب بھی دوسروں کو دلوادیں گے ۔سچائی اور دیانتداری ،عدل وانصاف ، تواضع انکساری ،غصے پر قابوپانا،لوگوں کو معاف کرنا،دل کوکینہ اور بغض سے پاک رکھنا اور زبان کو بری باتوں سے روکنا ضروری ہے۔ ہمارے کردار اوراخلاق میں وہ مقناطیسیت اور شیرینی ہونا چاہیے کہ لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح ہمارے گرد جمع ہوجائیں

اخلاقی قدروں سے عاری شخص صحیح معنوں میں انسان ہی نہیں ہے، یہ نہ ہو تو دنیا کا پر امن رہنا نا ممکن ہے، بد اخلاقی ہر سماجی برائی کی جڑ ہے، اسی سے گھروں کا سکون برباد ہوتاہے ، اور اس کی بدترین شکل قوموں کو لے ڈوبتی ہے ۔بدترین اخلاق کے باعث قوم حضرت لوطؑ او رقوم حضرت نوح ؑ کو عذاب الہٰی سہنا پڑا، آج ان کا نام و نشان باقی نہیں ۔ اخلاق انسانیت کی روح ہے۔  

اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں ۔اگر اخلاق اچھے نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائے گی یہ ہمارے لیے اخلاق کی تربیت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہمارا معاشرہ اس پر عمل کرے تو معاشرہ سے تمام اخلاقی خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں اور معاشرہ امن، اخوت، بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتا ہے

 ابو داؤد کی  روایت میں ارشاد ِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے قائم و اللیل اور صائم النہار کا درجہ پا جاتا ہے (ابو داؤد)

اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہے اور تم اس کے جواب میں اسے دعا دو گالی کا جواب گالی سے نہ دیں اگر کوئی تمہیں برا کہتا ہے اور تم اسے اچھا کہتے ہو تو ایک دن وہ تمہیں اچھا کہنے لگ جائے گا۔اگر کوئی تم سے زیادتی کرتا ہے اور تم اسے معاف کر دیتے ہو تو اس کے دل میں تمہاری قدر اور خلوص بڑھے گا۔ اگر کوئی تمہارے حقوق تلف کرنے کا موجد بنتا ہے تو تم اس کے حقوق کے محافظ بن جاؤ تو یقیناًایک دن ضرور اسے بھی شرم آئے ہی جائے گی اور اس طرح معاشرہ خود بخود سدھرتا چلا جائے گا۔

 آپﷺ نے اخلاق حسنہ کے لئے اتنی دعائیں اور اتنی تاکید اس لئے فرمائی ہے کہ انسان اخلاق ہی سے بڑا بنتا ہے اور عمدہ سیرت سب سے بڑی سفارش ہوتی ہے اور انسان کی پہچان بھی اخلاق سے ہوتی ہے۔

اللہ رب العزت ہم سب کو اپنے پیارے نبی خاتم النبیین ﷺجیسے اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کی جملہ تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

Comments are closed.