حماس کی حمایت کرنے والوں کو ختم کردینا چاہئے، اسرائیلی وزیر
سات اکتوبر سے اسرائیل کی غزہ پر بمباری جاری ہے،دنیا جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی لیکن اسرائیل حملوں سے باز نہیں آ رہا، ایسے میں اسرائیل کے وزیر برائے قومی سلامتی اتماربن گویر نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کی حمایت کرنے والوں کو ختم کر دینا چاہئے
امریکا اور اسرائیل میں دہشتگرد قرار دی گئی تنظیم کا حصہ رہنے والے اسرائیلی وزیر نے حال ہی میں غیر قانونی یہودی بستیوں میں 25000 ہتھیاروں کے علاوہ گولہ بارود اور دیگر جنگی سامان تقسیم کیا ،
اتمار بن گویر نسل پرست یہودی تنظیم کے سابق رکن تھے جس پر اسرائیل نے 1998 میں دہشتگردانہ کارروائیوں کے باعث پابندی عائد کر دی تھی،اسرائیلی وزیر کے پرتشدد عقائد کے باعث انہیں فوجی خدمات کی انجام دہی سے بھی روک دیا گیا تھا،
واضح رہے کہ سات اکتوبر سے اسرائیلی بمباری میں 11 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کو گرفتار بھی کرنا شروع کر دیا ہے،غزہ میں اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد مقبوضہ مغربی پٹی میں اسرائیلی افواج کی کارروائیوں اور فلسطینی شہریوں پر اسرائیلی آبادکاروں کے حملوں میں بے انتہا شدت آگئی ہے
ہسپتال پر ‘اسرائیلی حملہ’ ایک ‘گھناؤنا جرم’ ہے،سعودی عرب
غزہ کے الشفا ہسپتال پر بھی بمباری
اسرائیل کی حمایت میں گفتگو، امریکی وزیر خارجہ کو مہنگی پڑ گئی
اسرائیلی بمباری سے فلسطین کے صحافی محمد ابوحطب اہل خانہ سمیت شہید
فلسطینی بچوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لئے متحدہ عرب امارات میدان
جنگ بندی کے لئے اور کتنی شہادتیں چاہئے؟ شیری رحمان
نائب صدر پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ، او آئی سی سمیت عالمی دنیا کی بے بسی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بن چکی ہے،عالمی ادارے اور دنیا 7 اکتوبر سے جاری معصوم اور نہتے فلسطینیوں کا قتل عام روکنے میں ابھی تک ناکام ہوئے ہیں،11 ہزار سے زائد فلسطینوں کو شہید کیا گیا ہے جس میں 4506 بچے ہیںاعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیل نے یومیہ 320 فلسطینیوں کا قتل کیا ہے،بمباری کرکے ہسپتالوں کو قبرستان بنایا گیا ہے، غزہ کے مناظر عالمی دنیا کے اخلاقی معیار پر بدنما داغ ہیں،جنگ بندی کیلئے اسرائیل اور عالمی دنیا کو معصوم فلسطینیوں اور بچوں کی مزید کتنی شہادتیں چاہئیں؟
مسلسل اسرائیلی بمباری، غزہ کا الشفا ہسپتال غیر فعال
اسرائیل نے غزہ میں ہسپتالوں پر بمباری کی ہے،غزہ کا مرکزی ہسپتال الشفا مسلسل بمباری کی وجہ سے غیر فعال ہو چکا ہے، عالمی ادارہ صحت نے بھی تصدیق کر دی ہے،عالمی ادارہ صحت کے مطابق الشفا ہسپتال مکمل طور پر غیر فعال ہو چکا،ہسپتال اور اسکے گردونواح میں اسرائیل نے مسلسل بمباری کی، جس کی وجہ سے حالات تشویشناک ہو گئے، ایسے میں طبی عملے کا کام جاری رکھنا ممکن نہیں،حماس کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ پٹی کے تمام اسپتالوں میں کام بند ہوگیا ہے،
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق الشفا ہسپتال میں تقریباً دو ہزار لوگ موجود ہیں جن میں مریض، طبی عملہ اور بے گھر افراد بھی شامل ہیں
عالمی ادارہ صحت نے اسرائیل سے ایک بار پھر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے جنگ بندی ضروری ہے۔تاہم اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ جنگ بندی نہیں ہو گی،الشفاء ہسپتال کے ایک سرجن ڈاکٹر مروان ابوسدا نے این بی سی نیوز کو بتایا کہ وسائل کی شدید کمی کا مطلب ہے کہ تین بچے مر چکے ہیں اور مزید 36 کو فوری خطرہ لاحق ہے۔ہسپتال میں طبی سہولت، بجلی اور پانی کی کمی تھی،بمباری نے سب کچھ تباہ کر دیا،
حماس کے مطابق اسرائیل نے جان بوجھ کر الشفا ہسپتال کے شعبہ جات پر فائرنگ کی اور ایک کارکن کو زخمی کر دیا جس نے الیکٹرک جنریٹر کا معائنہ کرنے کی کوشش کی تھی،قبل ازیں، اسرائیل کی دفاعی افواج نے سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ اس نے فوری طبی مقاصد کے لیے 300 لیٹر ایندھن الشفا کو فراہم کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن حماس کی جانب سے یہ سہولت قبول نہیں کی گئی،اسرائیلی فوج یہ کہہ کر ہسپتالوں پر اپنے حملوں کا جواز پیش کرتی ہے کہ وہاں حماس کے فوجی ٹھکانے، اہلکار موجود ہیں.
مسلسل بمباری کے بعد اسرائیلی فوج اب الشفا ہسپتال کے دروازوں تک پہنچی ہے، طبی عملے کا کہنا ہے کہ ہسپتال غیر فعال ہو چکی ،اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے، بجلی کے جنریٹرز کے لیے ایندھن نہ ہونے کے باعث وہ مریضوں کا علاج کرنے سے قاصر ہیں،الشفا ہسپتال میں شہریوں نے بھی پناہ لے رکھی تھی، ہزاروں شہری ہسپتال کے اندر موجود ہیں ،اسرائیلی فوج کا دعویٰ کے کہ الشفا ہسپتال پر انکاکنٹرول سے شمالی غزہ کے 50 فیصد حصے پر اس کا قبضہ ہو جائے گا
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق الشفا ہسپتال کے اندر 650 مریض، 500 عملے کے افراد اور ڈھائی ہزار کے قریب بے گھر افراد موجود ہیں،اسرائیلی فوج کے ٹینک الشفا ہسپتال کے دروازے کے باہرموجود ہیں،وہیں اسرائیل ڈرونز کے ذریعے ہسپتال پر حملے کر رہا ہے، ان حملوں کی وجہ سے طبی عملے کو بھی مشکلات کا سامنا ہے،ہسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سلمیہ نے سی این این کو بتایا کہ الشفاء ہسپتال کے اندر کے حالات "تباہ کن” ہیں، تقریباً 7,000 افراد ہسپتال میں پناہ لیے ہوئے ہیں، جن میں 1500 مریض اور طبی عملے کے اراکین شامل ہیں۔ ہسپتال نے اسرائیلی فوج سے ہر گھنٹے میں 600 لیٹر ایندھن طلب کیا ہے تاکہ اس کے جنریٹرز کو بجلی فراہم کی جا سکے لیکن فوج نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ہم نے اسرائیلی فوج کو بتایا کہ انہوں نے جو 300 لیٹر ایندھن کی پیشکش کی ہے وہ ہسپتال کو 30 منٹ تک چلانے کے لیے کافی نہیں ہے،اب بچوں کے لیے پانی، خوراک، دودھ نہیں ہے.الشفاء ہسپتال غزہ کی وزارت صحت کے تحت آتا ہے جس پر حماس کا کنٹرول ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کا ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی عمارت کے نیچے ہے۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں اور حماس نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
سی این این نے العربیہ نیٹ ورک کے ایک رپورٹر، خدر الزانون سے بھی بات کی، جو ہسپتال کے اندر ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ہسپتال اور اس کے صحن میں کیا ہو رہا ہے اس کی اطلاع دینا ہمارے لیے تقریباً ناممکن ہے، ہمارے پاس بمشکل سگنل آ رہے،لیکن انٹرنیٹ نہیں ہے،کوئی بھی ہسپتال سے باہر جانے کی ہمت نہیں کر سکتا، ہمیں معلوم ہے کہ ان عمارتوں میں کچھ لوگ موجود ہیں لیکن ایمبولینسز ہسپتال سے باہر نہیں نکل پاتی ہیں کیونکہ پچھلے دنوں ہسپتال سے باہر جاتے ہوئے ایک ایمبولینس کو ٹکر مار دی گئی تھی
فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی نے پیر کے روز غزہ شہر میں القدس ہسپتال کے قریب "شدید فائرنگ” کی اطلاع دی۔سی این این کے مطابق ہلال احمر سوسائٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ القدس ہسپتال کے قریب اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی، علاقے میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں،اسرائیلی حملوں کی وجہ سے زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،غزہ کا دوسرا بڑا ہسپتال القدس بھی مکمل طور پر بند ہو گیا ہے، ایندھن کی کمی اور بجلی کی بندش کی وجہ سے ہسپتال اب کام نہیں کر رہا،