ہمارا معاشرہ اور بے روزگار نوجوان طبقہ تحریر:عائشہ عنایت الرحمان

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں
شامل ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے اسے اگر نوجوانان پاکستان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح زراعت کسی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اتنی ہی نوجوان طبقہ ملک کے لیے اہمیت رکھتا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر دوسرا نوجوان بے روزگار ہے اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ بھی بے روزگار ہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان اس لئے بے روزگار ہے کہ سرکاری نوکری کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ سرکاری نوکری ہزار میں سے کسی ایک دو کو نصیب سے ملتی ہیں۔

روزگار کس طرح تلاش کیا جائے؟
ضرورت اس امر کی نہیں کہ ہر ایک کو سرکاری نوکری مل جائے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جہاں ہر کسی کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکے جہاں ان کو موٹیویٹ کیا جا سکے جہاں ان کی مائنڈ سیٹ کیا جا سکے جہاں ان میں شعور پیدا کیا جاسکے کے روزگار صرف یہی نہیں کہ آپ کو سرکاری نوکری مل جائے بلکہ روزگاری ہیں کہ اگر آپ کو سرکاری نوکری نہیں مل رہی باوجود لاکھ کوشش کے تو آپ کو یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنا نہیں چاہیے اور ڈپریشن کا شکار نہیں بننا چاہیے بلکہ آپ اپنی سیلف اکیڈمی چلا لیں جہاں آپ ہزاروں بچوں کو ٹیوشن پڑھاؤ اور انکو انکی مستقبل کے لیے موٹیویٹ کرو کرو ۔
جو کیڈمی نہیں بنا سکتے تو کسی دوسرے کی جوائن کرو اور اور اس میں کمال تک پہنچ جاؤں۔ ایسے بہت سے سکالر میں نے دیکھے ہے کہ جب سرکاری نوکری کے پیچھے ناکام ہوجاتے تو پھر یہی سیلف اکیڈمی کھول دیتے ہیں جہاں معاشرے کے ہزاروں بچے انکے مستقبل کے لیے موٹیویٹ کئے جاتے ہیں۔
اگر آپ well educated نہ ہو تعلیم تھوڑی بہت ہے تو بھی بہت کچھ کر سکتے ہو ,بشرط کہ ارادہ ہو،لگن ہو۔
ہر انسان میں ضرور کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ چھپا ہوا ہوتا ہے اپنے اندر کی ٹیلینٹ کو اجاگر کرو اس میں کمال تک حاصل کرو ۔ روزگار کے لئے اعلی تعلیم یافتہ ہونا شرط نہیں، اور نہ روزگار صرف سرکاری نوکری کا نام ہے۔ آپ ارادہ کرو ،کوشش کرو اپنے ربّ پر کامل یقین رکھو ایک دن انشاللہ ضرور آپکی محنت رنگ لائے گی اور کامیابی آپکی قدم چومے گی۔ قاسم علی شاہ کا قول یاد آیا کہ محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کامیابی شور مچادے .
ضروری نہیں کہ آپ سرکاری ملازم بن جاؤ اب بہت کچھ بن سکتے ہو بشرط کہ جزبہ موجود ہو آپ میں ۔ روزگار کے ساتھ ساتھ نام بھی کماؤ اور اپنے معاشرے کے لیے بھی کچھ ایسا کرو کہ مرنے کے بعد بھی آپکا نام زندہ رہے۔ ہمارے سامنے زندہ مثالیں موجود ہیں جیسے کہ عبدالستار ایدھی جس نے اپنا سب کچھ لٹا کر خالص جذبے کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کیا آج اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا نام زندہ ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک، جس نے زندگی لگا دی اپنے فیلڈ میں ، آج انکی بدولت لاکھوں غیر مسلم اسلام سے با مشرف ہوئے۔ قاسم علی شاہ اور اسی طرح اور بھی بہت سارے زندہ مثالیں ہیں ہمارے سامنے ۔
بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کہ اپنے اندر کی آواز کو سنو کہ تم کس لئے پیدا کئے گئے ہو ۔اپنے اندر کی پوشیدہ خوبیوں کو اجاگر کرو۔

ایک کم ذہنی ہے کہ ہم ہر مصیبت اور مشکل کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ اصل میں ہم میں شعور کی کمی ہے، جب شعور آجاے اور تخلیقی زہن بن جائے تو روزگار کا مسئلہ 50 فی صد حل ہوجائے گا.

بل گیٹس نے CSS نہیں کیا.
جیک ما نے CSS نہیں کیا. اسٹیوجابز نے CSS نہیں کیا .
مارک زکر برگ نے CSS نہیں کیا ۔
ان کی ایک کمپنی کی قیمت پاکستان کے 70 سال قرض سے زیادہ ہے۔
اگر وہ CSS کرتے تو آج صرف ڈی سی( DC) لگے ہوتے ۔ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے کہ قوم کو افسر نہیں تخلیقی ذہن چاہیے..

آج کل کے زمانے میں اگر دیکھا جائے تو بے روزگاری کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں،کیونکہ یہ ماڈرن ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، ایسے ہزاروں آپلیکیشنز ہے موبائل فون میں جس کے ذریعے پیسے کمائے جا سکتے ہیں، لیکن وہی بات کہ ایک تخلیقی زہن کی ضرورت ہے۔

حکومت سے شکو
اک تلخ حقیقت کہ اعلی تعلیم یافتہ سرکاری نوکری کے پیچھے خوار ہو رہے ہیں۔ یہ حکومت کی زمہ داری ہے کہ انکو انکی ڈگری کے حساب سے سیٹ دےدیں، ورنہ یہی نوجوان آخر میں دل برداشتہ ہو کر غلط اختیار کر جاتے ہیں۔ یہ صرف ان کی ذات کی حد تک نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے لئے بھی تباہی کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرو کہ ہماری ٹیچرز تھی فزکس کی، انکا شوہر نشایئ تھا۔ میں نے ایک دن پوچھا کہ میڈم یہ ماجرا کیا ہے تو کہنے لگی کہ بیٹا میرے شوہر نے انجینئرنگ میں ڈگری کی ہے اور اپنی یونیورسٹی کا ٹوپر رہا ہے پر جب 7 ،6 سال مسلسل کوشش کے باوجود سرکاری نوکری نہیں ملی تو آخر میں دل برداشتہ ہو کر یہ راستہ اپنایا اور نشائ بن گیا ۔اسی طرح میرے جاننے والوں میں سے تعلیم یافتہ نوجوان جس نے 13 14 سال سرکاری نوکری کے پیچھے دھکے کھاے اور ہاتھ کچھ نہیں آیا تو آخر میں زد میں آکر کریمنل بن گیا۔ تو یہ کس کا نقصان ہوا ؟
اگر حکومت ان کو بروقت روزگار فراہم کرے تو اس طرح جرائم کی نوبت نہیں آ ے گی اور اسی طرح یہ معاشرہ بہت سی برائیوں سے بچ سکتا ہے۔

@koi_hmmsa_nhe

Comments are closed.