ہمارے معاشرے میں ہر شخص کی زبان سے ایک ہی بات سننے کو ملتی ہے قانون اندھا ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں بدقسمتی سے ملک خداداد کے اندر وہ چیز اندھی ہے۔ جس نے پورا ایک معاشرہ قائم رکھنا ہوتا ہے ۔ جہاں انصاف قائم کرنے کے لئے قانون ہی اندھا ہو وہاں امن کیسے قائم ہو سکے گا۔
ایسی جگہوں پر پورا معاشرہ اندھا اور بہرہ بن جاتا ہے اور پھر ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا۔ لوگوں کے سامنے ظلم ہو بھی رہا ہو تو لوگ کتراتے ہیں کہ ہمیں کیا ہم کیوں کسی دوسرے کی لڑائی کا حصہ بنیں۔اور پھر ظالم کو لوگ اپنا ہمدرد اور محافظ سمجھنے لگتے ہیں عزت کا معیار طاقت بن جاتی ہے۔ معاشرے کی بنیادوں میں ناانصافی ظلم جھوٹ اور کرپشن پائی جاتی ہے۔تو بتائیے ایسے میں معاشرے کیسے اپنے پائوں اور اصولوں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔
ایسے معاشرے جہاں قانون نافذ کرنے والے انصاف قائم کرنے والے اپنی قیمت لگواتے ہیں۔ جہاں انصاف کرنے سے زیادہ اپنی عیاشیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جو لوگ قانون کو ایک کتاب سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے جس نے جب چاہا پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
ایسے معاشروں میں ظلم بھی ہوتا ہے ناانصافیاں بھی ہوتی ہیں ۔ اور پھر وہاں انسانیت ختم ہو جاتی ہے سفاک حکمران مسلط ہو جاتے ہیں۔پھر وہاں قانون کی حیثیت ایک طوائف جیسی بن جاتی ہے۔ جس کا جب چاہا قیمت ادا کر کے خرید لیتے ہیں ایک مظلوم کو کئی سال انصاف کے لئے ٹھوکریں کھانے پڑھتے ہیں ۔جہاں طاقتور اور بااثر لوگ قانون کو توڑ کر بھی انصاف خرید لیتے ہیں وہاں انصاف کرنے والے قاضی کا کردار اس طوائف جیسا ہوتا ہے ۔جس کے سامنے گاہک کھڑے ہوں اور وہ اس کی بولی لگاتے ہیں۔
ایک طوائف سے بھی زیادہ بدکردار ہیں وہ قاضی جو اپنا ضمیر ہی نہیں میری قوم کی نسلوں کا سودا کرتے ہیں۔ جو ایک ایسے مجرم کو چھوڑ دیتے ہیں۔ جو معاشرے کے لاکھوں نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرتا ہے۔ جو ٹارگٹ کلنگ منشیات اور جسم فروشی جیسے دھندوں میں شامل ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے کا حصہ رہ کر شرم محسوس تو ہوتی ہے جہاں آپ اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں تو آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔
یہاں ایک سوال تو بنتا ہے کہ کیا یہ ملک یہ آزاد ریاست صرف اشرافیہ کی ہے ۔کیا چند لوگ اس قوم اور ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں سفارش اور رشوت دے کر منصف کے منصب پر بیٹھنے والے یہ دو ٹکے کے ضمیر فروش لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں ؟؟؟
ایسے وطن فروش کس قانون کے تحت فیصلے اپنی مرضی سے کرتے کرتے ہیں میں ایک پاکستانی شہری ہوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزاد فرد ہوں۔ میرا حق بنتا ہے میں ایسے قاضی سے سوال کروں وہ کس قانون کے تحت توہین عدالت ہر اس شہری پر لگا سکتا ہے جو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بات کرتا ہو۔ جس عدالت کے باہر چند ٹکوں کے بدلے جھوٹے گواہ ملتے ہیں۔ اسی عدالت کا قاضی جھوٹے فیصلوں کے لئے چند ٹکوں پر بک جاتا ہے ۔لگتا تو پھر ایسے ہی ہے کہ میرے ملک کے اندر جنگل کا قانون بھی نہیں ہے جانوروں کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہوں گے۔
مگر یہاں میرے معاشرے میں تو ہر طاقتور وقت کا فرعون ہے۔کوئی بھی صاحب اقتدار ہر بااختیار خود کو وقت کا خدا سمجھ لیتا ہے۔
ہم سب کو ایسے اشرافیہ کے خلاف اعلان بغاوت کرنا ہو گا ہم ایسے قانون کو نہیں مانتے جس میں طاقتور کو چھوڑ دیا جائے غریب کی زندگی تباہ کر دی جائے ۔کیا اس ملک کی بڑی عدالت میں بیٹھا وہ جج جواب دے گا۔ جس نے ہزاروں نواجوانوں کی زندگیاں اندھیری کوٹھڑیوں کی نظر کر دی ہیں۔ یاد رکھیں ایک عدالت خدا کی بھی ہے لیکن وہاں جانے سے پہلے میں سوال کرتی ہوں اگر انصاف قائم نہیں کر سکتے تو میں یہ حق محفوظ رکھتی ہوں ۔ ایسے قاضی کا گریبان ہو گا میرا ہاتھ ہو گا میں ایسے اندھے قانون پر یقین نہیں رکھتی جس میں منصف بھی اندھا ہو جس میں حاکم وقت بھی اندھا ہو جہاں پورا معاشرہ اندھا بن جائے۔
@SeharSulehri