ہتک عزت بل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ، یہ بل حرف آخر نہیں ہے، گورنر پنجاب

گورنر پنجاب نے پنجاب کے مختلف محکموں میں 49 نابینا افراد کے تقرر نامے دئیy
0
85
pk

راولپنڈی : گورنر پنجاب سردار سلیم خان کی جانب سے ہتک عزت کا بل پنجاب اسمبلی کو واپس بھجوانے کا امکان ہے۔

نجی خبررساں اداے سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر سلیم خان نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے ہتک عزت بل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ، یہ بل حرف آخر نہیں ہے ، پنجاب حکومت اسے دوبارہ دیکھ کر قابل اعتراض باتیں نکالے، ہتک عزت بل کی وجہ سے ملک میں طوفان برپا ہے جس کو ختم کرنے کیلئے اگر ان کی ضرورت پڑی تو وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو بٹھا کر مسئلہ حل کرانے کی کوشش کریں گے۔

دوسری جانب راولپنڈی میں نابینا افراد کو تقرر نامے دئیے جانے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب نپے کہا کہ ہتک عزت قانون حرف آخر نہیں اس پر صحافتی تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز سے بات ہونی چاہیے، یہ قانون میں نے ابھی پڑھا نہیں، مطالعے کے بعد اسے اپنی قانونی ٹیم کو دوں گا وہ بھی اسے دیکھیں گے امکان ہے میں پنجاب حکومت کو ہتک عزت قانون پر نظر ثانی کا کہوں اور میں پُرامید ہوں کہ ہتک عزت قانون کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ میں 15 دنوں سے کرپشن کے باعث بہت پریشان ہوں، آج صورتحال اس اسٹیج پر پہنچ گئی ہے کہ اس غریب قوم کا اربوں روپے ایک ڈکار مار کر کھا لیا جاتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، ہمارے قوانین اور سسٹم میں اتنی کمزوری ہے کہ لوگوں کو پرواہ ہی نہیں، پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر الیکشن میں مِیں کرپشن ہوئی ہے، ساری سیاسی جماعتیں اس کی ذمہ دار ہیں، اسمبلی میں بیٹھ کر کوئی ایسی قانون سازی نہیں کر سکتے تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہے۔

گورنر پنجاب نے پنجاب کے مختلف محکموں میں 49 نابینا افراد کے تقرر نامے دئیے اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ نابینا افراد کی فلاح کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے دکھی انسانیت کی خدمت عبادت کا درجہ رکھتی ہے سردار سلیم حیدر باعزت روزگار سب کا بنیادی حق ہے،نابینا افراد نے معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا جو قابل ستائش ہے۔

واضح رہے کہ جوڈیشل ایکٹوزم پینل نے ہتک عزت قانون 2024 کو پنجاب اسمبلی کو واپس بھیجنے کیلئے گورنر پنجاب کو خط ارسال کردیا ہے،جوڈیشل ایکٹوازم پینل کی جانب سے گورنر پنجاب کو بھجوائے جانے والے خط میں کہا گیا ہے کہ ہتک عزت کا قانون آئین کے آرٹیکل 19 کے منافی ہے۔ اس کے نفاذ سے آزادی اظہار رائے کو روکا گیا جو بنیادی حقوق کے خلاف ورزی ہے-

Leave a reply