حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃاللہ علیہ مشہور صوفی بزرگ ہیں جنہوں نے زید و تقوی کشف و کرامات اور صوفیانہ شاعری کی وجہ سے کافی شہرت پائی ہے ان کا اصلی وطن علاقہ بہاولپور کا ایک مشہور گاؤں اُچ گیلانیاں تھا کتاب تاریخ الاصفیاء جو بلھے شاہ رحمۃاللہ علیہ کے مرشد شاہ عنایت قادریرحمۃاللہ علیہ کی خاندانی تصنیف ہے اس میں ان کا سلسلہ نسب چودھویں پشت میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ سے جا ملتا ہے تاریخ” اُچ” میں سادات کا ذکر کرتے ہوئے مولانا حفیظ الرحمن گیلانی نے بلھے شاہ رحمۃاللہ علیہ کا سلسلہ نسب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ کے فرزند حضرت شیخ عبدالوہاب رحمۃاللہ علیہ کے توسط سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ علیہ تک پہنچایا ہے حضرت بلھے شاہ رحمۃاللہ علیہ کے والد بزرگوار کا اسم گرا می حضرت سخی شاہ محمد رحمۃاللہ علیہ تھا آپ ایک درویش صفت ممتاز عالم دین تھے اور عبادت الہیہ میں مصروف رہتے ہیں آپ نے اسلام کی سربلندی کے لئے خاددانی روایات کو قائم رکھا حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃاللہ علیہ کی پیدائش ء1680 بمطابق 1091ھ میں ہوئی آپ میں شاعری کا رحجان بچپن سے ہی تھا ایک مرتبہ آپ یپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ گاؤں سے باہر ایک کھیل کود میں مصروف تھے اور چینا کا کھیل کھیلا جا رہا تھا حضرت بلھے شاہ رحمۃاللہ علیہ بھی ان تفریحات میں مشغول تھے کہ ان کے والد محترم انھیں تلاش کرتے ہوئے ادھر آ نکلے انہوں نے دیکھا کہ معصوم بچہ ہاتھ میں تسبیح لئے اشعار پڑھ رہا ہے
"لوکاں دیاں بپ ملیں تے بابے دا جب مال
ساری عمر امالا پھیری اک نہ کھتھا وال
چینا انج چیھیڑندا
اس کا مطلب یعنی لوگوں کا مال کھاتے رہے اور جو کچھ اللہ نے دیا وہ بھی خود کھا لیا رمز شناس باپ نو عمر بیٹے کے عارفانہ طنز سے بہت متاثر ہوئے اور وجد میں آ کر جھومنے لگے معرفت کی یہ پہلی چنگاری تھی جس نے معصوم دل کی کائنات میں روحا نیت پیدا کی اُچ گیلانیاں میں شاہ محمد رحمۃاللہ علیہ کے حالات کچھ ساز گا نہ رہے آپ نے اہل و عیال سمیت مال و متاع سمیٹا کسی نئے مقام کی تلاش میں نکل پڑے ان کو ایک گاوں ملک وال پسند خاطر ہوا اس میں بودوباش اختیار کر لی آہستہ آہستہ ان کے علم و فضل کا چرچا ہوا تو وہ ہر دلعزیز ہو گئے ملک وال کے نواحی ایک گاؤں پانڈو کی واقع تھا جسے ایک شخص پانڈو چودھری نے بڑی محنت سے بسایا تھا جب اسے شاہ سخی محمد رحمۃاللہ علیہ کے علم اور درویشی کا علم ہوا تو وہ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا مدعا بیان کیا جسے آپ نے مان لیا اور اہل و عیال سمیت پانڈو کی بھٹی آباد ہو گئے جہاں پر آپ نے ایک نئی مسجد میں قرآنی تعلیمات کا سلسلہ شروع کیا اور فرائض امامت ادا کرنے لگے جس سے پانڈو کی بھٹی ایک دینی مرکز بن گیا بعض تذکروں کے مطا لعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے مسجد کوٹ قصور میں درسی تعلیم حاصل کی اور آپ کے معلم خواجہ حافظ غلام مرتضٰی قصوری ایک جید عالم فاضل تھے بیان کیا جاتا ہے کہ مشہور عالم کتاب ہیر کے مصنف حضرت وارث شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی اس عظیم استاد کے سامنے زانوئے ادب نہ کیا تھا گویا حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت وارث شاہ رحمۃ اللہ علیہ ایک ہی عظیم استاد کے شاگرد تھے ایک موقع آپ ان کے استاد ارشاد فرماتے ہیں ” مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں ایک بلھے شاہرحمۃ اللہ علیہ جس نے علم حاصل کر کے سارنگی پکڑ لی اور دوسرا وارث شاہ رحمۃ اللہ علیہ جو عالم بن کر ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا ” درسی تعلیم بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو مطمئن نہ کر سکی آپ کی نگاہ بصیرت حقیقت کی متلاشی تھی اور آپ کسی مرشد کامل کا دامن تھامنا چاہتے تھے اس زمانہ میں حضرت شاہ عنایت قادری رحمۃ اللہ علیہ لاہور میں مسند ولایت پر جلوہ افروز تھے اور آپ کے زُہد و تقدس کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا حضرت بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی در فنا فی الشیخ کی منزل تک پہنچ گئی آپ کے والدین اور ہمشیرہ پانڈو کی میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے لیکن آپ پانڈو کی کے لوگوں کے ناروا سلوک کی وجہ سے پانڈؤ خۃ ثحؤر کر نزدیک ہی گاؤں دفتوح میں اپنی ایک ہمشیرہ سمیت آ گئے وہاں سے پھر اپنے مرشد کی ہدایت پر اپنی ہمشیرہ کو ساتھ لے کر قصور آ گئے اور شہر سے باہر تالاب کے قریب ڈیرہ جما لیا یہ تالاب آج کل ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے آپ کے دو شاگرد حافظ جما ل اور سلطان احمد مستانہ بھی ساتھ تھے آپ کے محاسن کا بھی چرچہ ہونے لگا آپ ہر وقت عبادت الہی میں مصروف رہتے تھے اکثر خاموش رہتے پھر لنگر کا بھی انتظام ہو گیا اور محفل سماع بھی گرم رہنے لگی جس سے عقیدت مندوں کا بھی ہجوم لگا رہتا تھا حضرت بلھے شاہ پنجابی زبان کے عظیم المرتبت شاعر تھے ایک طرف ان کی ذات فیوض و برکات کا تو دوسری طرف ان کی شاعری اپنے اندر اثر و تاثیر اور سورز و گداز کا ایک خزانہ لئے ہوئے تھی ان کے پاکیزہ نغموں سے پنجاب کے گاؤں قصبے اور شہر گونج اٹھے ان کی شاعری کی شہرت اپنے وطن سے نکل کر دور دور تک پھیلی ان کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور نا خواندہ طبقہ بھی ان کے اشعار میں لذت محسوس کرتا ہے آپ کا کلام توحید باری تعالی فنا فی اللہ وحد الوجود اور ہمرا دست کی تفسیر ہے آپ عشق الٰہی کو دشوار گزار منزل سمجھتے تھے کیانکہ شان کبریائی بڑی بے نیاز ہے وہاں بڑی سے بڑی قربانی اور نیک کمائی سے دعوی نہیں کیا جا سکتا
بھروسہ کی آشنائی دا ڈر لگدا بے پرواہی دا
ابراہیم چخا وچ پائیو سلیمان نوں بھٹھ جھکائیو
یونس مچھلی توں نگلائیو پھر یوسف مصر دکائی دا
توحید جکا نکتہ وحدت خیال میں مضمر ہے کثرت علوم میں نہیں
الف اللہ نال رتا دل میرا
مینوں ” ب” دی خبر نہ کائی
علم نہ آوے شمار وچ
مینوں اکو الف درکار
آپ کا وصال ء1881 ھ کے بعد ہوا اور آپ کو قصور میں دفن کیا گیا آپ کا مزار اقدس قصور میں مرجع خلائق ہے
اور ہر سال بھادوں کی دس تاریخ کو آپ کا عرس زورو شور اور عقیدت سے منا یا جاتا ہے اور آج ان کا 262 واں سالانہ عرس عقید ت سے منایا جا رہا ہے
( حوالہ اقتباس یہ الحاج صوفی برکت علی کی کتاب "کلام حضرت بابا بلھے شاہ رحمۃاللہ علیہ مع حالات و واقعات سے لیا گیا ہے )