کراچی :ہیپاٹائٹس ہر گھنٹے 4 پاکستانیوں کی زندگی چھین لیتا ہے:اس حوالے سے ماہرین صحت کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سولہویں منٹ میں ایک پاکستانی ہیپاٹائٹس اور 31ویں منٹ میں ایک عورت زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتی ہے، ان زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے کیونکہ یہ امراض قابل علاج ہیں، یہ قیمتی جانیں ریت کی طرح ہمارے ہاتھوں سے پھسل رہی ہیں، ہم بے بس ہیں۔
ماہرین کا کہنا کہ ایک روز میں 50 عورتیں دوران زچگی مر جاتی ہیں لگ بھگ 96 افراد ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، نہ کوئی خبر بنتی ہے نہ سرکاری ادارے توجہ دیتے ہیں، یہ خاموشی ہمیں کن پستیوں میں دھکیل رہی ہے، ہم تو اپنے پڑوسی ممالک بھارت، ایران، بنگلہ دیش سے بھی پیچھے جارہے ہیں، اس پر ہمیں سوچنا اور کچھ کرنا ہوگا، ہمارا شمار افریقا کے پسماندہ ممالک کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ہیپاٹائٹس اے سے ایک لاکھ اور ہیپاٹائٹس ای سے 60 ہزار افراد سالانہ لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ حاملہ خواتین میں شرح اموات اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ پاکستان میں بچوں میں ہونیوالے وائرل ہیپاٹائٹس کا 50 سے 60 فیصد ہیپاٹائٹس اے پر مشتمل ہوتا ہے، ابتدائی مراحل میں علامات ظاہر ہونے کی وجہ سے 96 فیصد افراد 5 سال کی عمر تک ہیپاٹائٹس اے کے سامنے مزاحمت رکھتے ہیں دوسری طرف بالغ افراد میں ہیپاٹائٹس اے 3.5 سے 4 فیصد پیچیدہ ہیپاٹائٹس کا باعث بنتا ہے اور تقریباً 98 سے 100 فیصد بالغ افراد کو جوانی میں ہیپاٹائٹس اے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہیپاٹائٹس اے کی علامات میں بخار، ہاضمے کی خرابی، شدید زرد پیشاب، کمزوری، الٹی، پیٹ کے دائیں جانب درد ہونا، متلی اور چکر شامل ہیں۔ ہیپاٹائٹس سے بچنے کے لیے ویکسین کرانا، پھل اور سبزیاں دھو کر کھانا، اچھی طرح پکا کر کھانا، ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق دوائیں استعمال کرنا، برتن دھو کر استعمال کرنا شامل ہیں۔
بچوں کو 15 ماہ تک کی عمر تک 6 دفعہ ویکسین دینے سے انہیں 10 جان لیوا بیماریوں سے محفوظ کیا جا سکتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ہیپاٹائٹس کے 2735 مریضوں میں سے 232 اسپتال میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے 30 مریض جگر کی خرابی کا شکار ہوتے ہیں۔بالغوں میں 20 سے 22 فیصد اور بچوں میں 2.4 فیصد پیچیدہ ہیپاٹائٹس کی وجہ ہیپاٹائٹس ای ہے، ہیپاٹائٹس ای کے باعث اموات کی شرح 0.4 سے 4 فیصد تک ہے جبکہ دوران حمل یہ شرح کئی گنا 16 سے 33 فیصد تک بڑھ جاتی ہے، گندے پانی، گٹر والے پانی کے باعث ہیپاٹائٹس ای کا پھیلاؤ پاکستان میں شدت اختیار کررہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق سندھ میں خصوصاً کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر، اور میرپورخاص گندے اور آلودہ پانی کی فراہمی کے باعث سب سے زیادہ ہیپاٹائٹس اے اور ای کے خطرے سے دوچار ہیں۔
حالیہ سروے 2020ء کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی سے ایک لاکھ 64 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے، موجودہ رفتار کے ساتھ ہیپاٹائٹس سی کا خاتمہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ صوبوں کو پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کیلئے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے، اسپتالوں میں تمام مریضوں کا ہیپاٹائٹس سی کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے لیکن مثبت پائے جانے والوں کو علاج کے مقامات پر منتقل نہیں کیا جاتا، ہم ان مریضوں کا معالج سے رابطہ کرانے کا موقع گنوا رہے ہیں۔