محمد حسين ہيكل مصری شاعر، ادیب اور سیاست دان ہیں۔ ایک اعلی پائے کے سیرت نگار؛ جن کی سب سے بہترین تالیف "حیات ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم” ہے۔ محمد حسین ہیکل کی پیدائش 20 اگست 1888ء بمطابق 12 ذو الحج 1305ھ میں حنين الخضراء مصر میں ہوئی۔ انہوں نے قاہرہ میں لا اسکول الخدویہ سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1909ء میں گریجویشن مکمل کی 1912ء میں فرانس میں سوربون یونی ورسٹی سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، 10 سال تک ایک وکیل کے طور پر کام کیا۔ صحافت میں بھی رہے۔ احمد لطفی کے خیالات سے متاثر تھے۔
1923 ء میں اس قانون ساز اسمبلی کے وزیرِ تعلیم رہے۔ جس نے صدارتی نظام کا قانون تیار کیا جو مصر کا پہلا آئین شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد 1940 ء سے 1942ء تک دوبارہ وزیر رہے اور 1945ء میں سماجی امور کی وزارت دی گئی۔ لبرل پارٹی کے ڈپٹی اور صدر کے عہدوں پر کام کرتے رہے۔ سعودی عرب میں جب عرب ریاستوں کی لیگ کے چارٹر پر دستخط کیے گئے تو اقوام متحدہ میں مصری وفد کے سربراہ کے طور پر شامل تھے۔
محمد حسین ہیکل کی وفات سوموار 5 جمادى الاول 1376ھ بمطابق 08 دسمبر 1956ء میں ہوئی۔
تالیفات
روايۃ زينب۔
روايۃ سہيلہ فی الظلمۃ – 1914.
سير حياة شخصيات مصريۃ وغربيۃ – 1929.
حياتِ محمد – 1933.
فی منزل الوحى – 1939.
مذكرات فی السياسۃ المصريہ – 1951 / 1953.
الصديق ابو بكر۔
الفاروق عمر – 1944 / 1945.
عثمان بن عفان – 1968.
ولدی۔
يوميات باريس۔
الامبراطوريہ الإسلاميہ والأماكن المقدسہ – 1964.
قصص سعوديہ قصيرہ – 1967.
فی اوقات الفراغ،
الشرق الجديد
محمد حسین ہیکل کا نام تاریخ میں سیرت طیبہ کے مولف کی حیثیت سے زندہ و جاوید رہے گا۔ یہ ذکرِ محمد کا اعجاز ہے۔۔ انہوں نے عربی میں شاہکار کتابیں لکھیں۔انہوں نے حیات محمدﷺ کتاب1933ء میں لکھی اور اسی نہج پر حضرت عمر فاروق ؓ کی سیرت مبارکہ1944میں لکھی۔ حیات محمد ﷺ کا اردو ترجمہ ابویحیٰ امام خان نے کیا۔ اور اردو میں اس کتاب کو مقبولیت دوام حاصل ہوا۔
”حیات محمد ﷺ‘‘ کا اردو ترجمہ ہندوستان میں تاج کمپنی دہلی نے شائع کیا۔ اس کتاب کے تعارف میں یوں لکھا گیا۔’’ انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں جب دنیا کی مختلف اقوام نے سیرت پاک ﷺ کا مطالعہ شروع کیا تو تہذیب عالم کی اس عظیم شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو سمجھنے میں انہیں کافی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے مسلمانوں کے ہاں سیرت نگاری کا ایک خاص اسلوب پیدا ہوا۔ جس پر کلامی انداز غالب تھا۔ عہد جدید میں سیرت مبارکہ پر جن تحریروں کو سند کا درجہ دیا جاتا ہے ان میں محمد حسین ہیکل کی ”حیات محمد ﷺ‘‘ صف اول کی کتاب سمجھی جاتی ہے۔عربی زبان میں یہ کتاب کلاسیک کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوئے ہیں۔ عہد جدید میں سیرت نبوی ﷺ پر حوالے کی اس بنیادی کتاب کا ترجمہ مولانا ابویحی امام خاں نوشہروی نے اس خاص اسلوب میں کیا جس کی پختگی فن ترجمہ میں انہیں ایک بلند حیثیت دیتی ہے۔ عربی اسالیب کی بلاغت پوری صحت کے ساتھ ترجمے میں منتقل کی گئی ہے۔ اور اس اعتبار سے اردو میں سیرت نبوی ﷺ کے ذخیرہ ادب میں ایک اہم اور قابل قدر اضافہ ہے۔(ناشر ”حیات محمد ﷺ‘‘ دہلی)
کتاب ”حیات محمد ﷺ‘‘ جس عقیدت و احترام سے لکھی گئی اس کا اندازہ کتاب کے آغاز میں لکھے گئے مولف کے مقدمہ اول کے ابتدائی جملوں سے ہوتا ہے جب وہ کہتے ہیں:
’’ حضرت محمد علیہ الصلوۃ السلام یہ ہے وہ مبارک نام جو ہر روز کروڑوں لبوں پر آتا اور کروڑوں دلوں کو سرور و تازگی سے مالا مال کرتا ہے۔ ہمارے لب اور ہمارے یہ دل اسی نام سے ساڑھے تیرہ سو برس سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہی نہیں لبوں اور دلوں کی بہرہ مندی قیامت تک جاری رہنے والی ہے۔اذان پنچگانہ میں:ادھر صبح صادق نے رات کی سیاہی پر نور چھڑکا موذن نے الصلوۃ خیر من النوم پکار کر بنی آدم کو اللہ تعالی کے سامنے سجدے میں سر رکھنے کی تلقین کی اور اس کے ساتھ ہی کرہ ارض کے چپے چپے پر کروڑوں انسانوں نے درود و سلامتی کے تحفے پیش کئے۔۔ آں حضرت سے مسلمانوں کی محبت و عقیدت کا یہ حال ہے کہ نمازوں میں جب بھی آں حضرت کا ذکر آیا دل فرط مسرت سے پہلو میں اچھل پڑا۔ آں حضرت کی ذات کے ساتھ احترام و محبت کے یہ جذبات ہمیشہ وابستہ رہے ہیں۔ اور آئیندہ بھی اسی طرح وابستہ رہیں گے۔ یہاں تک کہ اسلام دنیا کے ذرے ذرے پر غالب آجائے‘‘۔ ( ”حیات محمد ﷺ‘‘ محمد ہیکل۔ ص۔ 3 دہلی۔ پہلا ایڈیشن 1988)
مزید یہ بھی پڑھیں؛
آج کتاب بینی میرا مشغلہ ہے ریما خان
دعا ہے پاکستان کو مخلص لیڈر شپ نصیب ہوجائے بشری انصاری
الیکشن کمیشن پر ضلعی حدود کی پابندی کرنا لازم نہیں ہوگا. فافن
سونے کی قیمتوں میں کمی
کتاب کے مقدمے میں محمد ہیکل نے ابتدائے آدم سے زمانہ جاہلیت کے مختلف ادوار کا ذکر کیا۔ اور پس منظر کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وصلم کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد مستشرقین کی جانب سے اسلام اور آپ ﷺ سے متعلق پیدا کیے جانے والے شکوک و شبہات اور ان کے ازالے کے لیے مستند کتب سیرت کی ضرورت اجاگر کی۔ اس تصنیف کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے محمد ہیکل لکھتے ہیں:
’’علمی زندگی طے کرنے کے بعد میں نے عملی دور میں قدم رکھا ہی تھا کہ دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمانوں کو ان مسائل سے متاثر دیکھا جو اسلام اور اس کے بانی کے متعلق پیدا کیے جاچکے تھے۔ کیا اسلامی ممالک اور کیا ان ملکوں کے اندر جہاں مسلمان رعایا کی حیثیت سے زیر نگیں تھے میں ان مسائل کی تحقیق میں ڈوب گیا۔ جن کی غلط بیانی اور فریب دہی کے چکر میں آکر مسلمان اور مشرق دونوں پریشان تھے۔ مغرب کے عیار اہل قلم اور اسلام کے جامد علماء کی اس کج روی سے صرف دین ہی کو خطرہ نہ تھا بلکہ یہ علمی حادثہ تمام عالم کے لیے مصائب کا پیش خیمہ تھا۔ کیوں کہ مسلمان جو صدیوں تک دنیا کے ہر خطے میں علم و تمدن کے نقیب رہے اگر انہی کے عقائد اور ان کے بانی کے اطوار و کردار میں ظلم و جہالت کی تیرگی ثابت ہوجائے تو جن قوموں نے ان کی برکت سے علم و دانش کے خزانے حاصل کیے وہ تہذیب و فنون میں کس حد تک کامیاب ہوئیں۔ تو میں اپنا فرض سمجھ کر ان مسائل کی تحقیق و مطالعے میں منہمک ہوگیا۔حتی کہ کتاب ”حیات محمد ﷺ‘‘ کی تدوین پر میری توجہ مرکوز ہوگئی۔( ”حیات محمد ﷺ‘‘ ص۔ 23)
مولف کتاب محمد ہیکل نے اس کتاب کو ترتیب دینے کے دوران قرآان و احادیث کتب اور دیگر حوالوں کو جس انداز میں مطالعہ کیا اور اسے اختیار کیا اس کی تفصیلات اس مقدمے میں دی ہیں۔ مقدمہ ثانی میں انہوں نے کچھ اضافے بھی کیے ہیں۔ وحی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
وحی کا تجزیہ موجودہ آلات سے نہیں ہوسکتا:حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نزول وحی کے زمانے میں جو مسلمان موجود تھے جب کوئی آیت قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر نازل ہوتی تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا۔ اس دور کے مسلمانوں میں بعض افراد نہایت دیدہ ور اور صاحب فراست بھی تھے۔یہود و نصاری میں سے بھی کچھ ایسے علماء مسلمان ہوچکے تھے جو ایمان لانے سے قبل پیغمبر اسلام کے ساتھ مناظرہ کرتے رہتے۔مگر مسلمان ہونے کے بعد انہوں نے بھی قرآن کے وحی ہونے سے انکار کا دامن نہیں چھوڑا۔۔ان تمام صورتوں کی موجودگی میں علم گوارا نہیں کرسکتا کہ وحی کو اس کی اصلیت سے ہٹا کر کسی اور نام سے پکارا جائے( ”حیات محمد ﷺ‘‘ ص۔45)
مقدمے کے آخر میں محمد حسین ہیکل نے سیرت نبوی ﷺ کی جانچ کا حتمی پیمانہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ:’’قرآن مجید کی تعلیم اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ وہ معجزہ ہے۔ جو حضرت محمد ﷺ کو دیا گیا۔ اس کے انداز اور ہمہ گیری سے ثابت ہوتاہے کہ وہ اپنے زمانہ نزول سے لے اس وقت تک دنیا میں جلوہ آرا رہے گا۔ جب تک یہ نظام مربوط ہے۔ اس لیے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کی سیرت کو قرآن مجید پر عرض(پیش) کریں اور آپ ﷺ کے متعلقہ روایات میں جو چیز قرآن مجید کے موافق ہو اسے قبول کرنے میں تامل نہ کریں۔ مگر قرآن کے سوا دوسرے ذرائع سے جو ایسے امور آنخصرت ﷺ کی سیرت کے متعلق منقول ہوں کہ وہ قرآن کے معیار پر پورتے نہ اتر سکیں ان سے انکار میں انہیں تردد نہ کرنا چاہئے( ص۔68)
کتاب حیات محمد کے آخر میں اسلامی تمدن اور اسلامی تمدن اور مستشرقین کے عنوان سے آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعددنیا کے حالات پیش کئے۔مجموعی طور پر محمد حسین ہیکل کی کتاب’’ حیات محمد ﷺ‘‘ سیرت النبی ﷺ پر عربی میں لکھی ہوئی شاہکار کتاب ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا اردو ترجمہ بھی اسی قدر شاہکار ہے۔ اس کتاب کا اسلوب رواں سلیس اور دل کو چھو لینے والاہے ۔ ذکر رسول ﷺ کو انہوں نے ادب و احترام اور واقعات کی سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔