نئی دہلی: بھارتی شہرحیدرآباد دکن کی قطب شاہی مسجد میں بت رکھ دیئے گئے-
باغی ٹی وی : ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں اور مساجد پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے ہندو شرپسندوں نے مسلمانوں کی عبادت گاہ پر قبضہ کرتے ہوئے اس میں بت رکھ دیئے بھارت میں بابری مسجد کے بعد مسجد میں بت رکھنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے، جس کی ویڈیو ز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں-
امریکہ،بھارتی وزیر خزانہ سمیت 11 اعلیٰ عہدیداروں پر پابندی کا مطالبہ
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہندو انتہاپسند مرد اورخواتین گیٹ توڑ کر زبردستی قطب شاہی مسجد میں داخل ہوئے اور بت رکھ دئیے۔ واقعہ کے وقت مسجد میں نماز ادا کی جارہی تھی۔
Babri repeats in the South India! In Hyderabad, a Hindu right wing crowd forcibly entered Qutub Shahi mosque area and has installed an idol. pic.twitter.com/hoaK1B7kir
— Ashok Swain (@ashoswai) October 16, 2022
ہندوانتہاپسندوں نے بت رکھنے کے دوران اپنے مذہبی نعرے بھی لگائے اور مسجد کی انتظامیہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ جبکہ ہمیشہ کی طرح پولیس نے ہندو انتہاپسندوں کا ساتھ دیتے ہوئے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
قبل ازیں بابری مسجد کے حوالے سے ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ اور یہاں پر بابری مسجد کی تعمیر ایک مسلمان نے سولہویں صدی میں ایک مندر کو گرا کر کی تھی۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہیں، جس کے بعد کچھ لوگوں نے رات کی تاریکی میں رام کے بت مسجد میں رکھ دیئے تھے۔ مسلمانوں کے مطابق اس مقام پر بتوں کی پوجا اس واقعے کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔
اب بغیر اجازت کوئی بھی آپ کو ٹوئیٹر ٹیگ نہیں کرسکے گا
چھ دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد کے کارکنوں، بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں اور ان کی حامی تنظیموں کے کارکنوں نے مبینہ طور پر تقریاً ڈیڑھ لاکھ رضاکاروں کے ہمراہ اس مقام پر چڑھائی کر دی۔ یہ جلوس وقت کے ساتھ ساتھ پرتشدد ہوتا گیا اور وہ کئی گھنٹے تک ہتھوڑوں اور کدالوں کی مدد سےمسجد کی عمارت کو تباہ کرتے رہے۔
اس واقعے کے بعد اس وقت کے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما نے ریاست اتر پردیش کی اسمبلی کو برخواست کرتے ہوئے ریاست کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اور پھر 1993 میں ایک صدارتی حکم کے تحت بابری مسجد کے ارد گرد زمین کا 67.7 ایکڑ رقبہ وفاقی حکومت نے اپنے اختیار میں لے لیا۔
اس کے بعد بابری مسجد کے واقعے کی تفتیش کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس میں بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کے کئی رہنماؤں سمیت 68 افراد کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔