ہنود و یہود کا اقرار فرامین رب العالمین و نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ،ازقلم :غنی محمود قصوری

0
129

ہنود و یہود کا اقرار فرامین رب العالمین و نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر

ازقلم غنی محمود قصوری

بطور مسلمان ہمارا اس بات پر یقین ہونا چائیے جو کوئی بات قرآن و حدیث کے ذریعہ سے مستند طریقہ سے ہم تک پہنچتی ہے وہ ہو کر رہنی ہے ہم اسے قبول کریں یاں نا کریں اللہ تعالی اس بات کو پورا کرکے چھوڑیں گے ان شاءاللہ-

مگر افسوس کہ آج ہم تاویلوں سے کام لیتے ہیں حالانکہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے اللہ رب العزت نے بذریعہ وحی کلام الہی میں ارشاد فرما دیا تھا-

یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ،اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے پروردگار (کی طرف) سے ہدایت پر ہیں اور یہی نجات پانے والے ہیں ۔ سورہ البقرہ

افسوس مسلمان ہوتے ہوئے آج ہمارا اعتراض ہوتا ہے تو قرآن پر اعتراض ہوتا ہے تو حدیث رسول پر جبکہ ہنود و یہود و دیگر کفار کو نبی ذیشان کی ہر بات سے اتفاق ہے وہ الگ بات ہے کہ ان کو کلمہ پڑھنے کی توفیق نہیں یہ بھی میرے رب کی مرضی ہے –

چودہ سو سال پہلے نبی ذیشان فرما کر گئے تھے کہ غرقد یہودویں کا درخت ہے اور یہودیوں کو قرب قیامت مجاھدین سے بچائے گا-

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کر دیں گے یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے اللہ کے بندے یہ یہودی میرے پیچھے ہے آؤ اور اسے قتل کر دو
سوائے درخت غرقد کے کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے-

مفسرین کے مطابق غرقد دراصل شجر یہود ہے جو گونگا درخت یا یہود کا پاسباں درخت کہلاتا ہے یہ خاردار جھاڑی کی صورت میں ہوتا ہے جنت البقیع کا اصل نام بھی بقیع الغرقد اسی لئے ہے کہ جس جگہ یہ قبرستان ہے پہلے وہ غرقد کی جھاڑیوں کا خطہ تھا،( صحیح مسلم)

یہودیوں کا آج اس حدیث پر اتنا یقین ہے کہ انہوں نے اپنا سرکاری درخت غرقد کو بنا لیا آج ہر یہودی کے گھر،ان کے پارک،ان کی ہر بلڈنگ کے آس پاس غرقد نامی درخت لازمی لگا ہے اور دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ غرقد کے درخت اسرائیل میں ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ فرمان نبی ذیشان جھوٹا نہیں حالانکہ وہ یہودی ہیں-

دنیا کی کل آبادی پونے 8 ارب ہے جس میں سے عیسائی 31.5 فیصد مسلمان 23.2 فیصد اور ہندو 15 فیصد ہیں باقی دیگر مذاہب کے لوگ ہیں یعنی کہ اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اس کے باوجود آج ہم مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں فلسطین ہو یا افغانستان کشمیر ہو یا عراق ہر جگہ مسلمانوں پر ہی ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور خاص کر فلسطین و کشمیر میں ہر ظلم کی حد کراس کی جا چکی ہے-

کچھ دن قبل ایک ہندو پنڈت کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ اپنے ہندوؤں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ کم ازکم 6 بچے ہر ہندو کے ہونے چائیے اور ہر ہندو کے گھر اسلحہ لازمی ہونا چائیے یعنی اس ہندو کو نبی کریم کی اس حدیث پر یقین ہے-

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ کر رکھا ہے ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور دوسرا گروہ جو حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ کے ساتھ ہوگا- (السنن الکبری۔ نسائی)

اس حدیث کی رو سے ہندو ڈرے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے مقابلے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں غزوہ ہند پر اور بھی بہت سی احادیث ہیں جن سے قرب قیامت عیسی علیہ السلام کے آنے تک غزوہ ہند ہونے کی بشارتیں ملتی ہیں مگر میں نے محض اس ایک حدیث کو بیان کیا ہے مگر افسوس کہ اس صیحیح سند کی حدیث سے انکاری ہمارے ہی کچھ بھائی بھی موجود ہیں جوکہ کہتے ہیں کہ غزوہ ہند تو ہو چکا جب ان سے پوچھا جائے کہ بھئی کب ہو چکا تو وہ کہتے ہیں کہ جب محمد بن قاسم نے ہند پر یلغار کی تھی مگر اب تو ہند تقسیم ہو کر پاکستان اور کئی علاقوں میں بٹ چکا ہے اس لئے غزوہ ہند کا نام نا لو-

ایسے دوستوں کے ہاں میری گزارش ہے کہ غزوہ ہند سے متعلق اور بھی بہت سے روایات موجود ہیں جن پر ضعیف ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے میں ان پر بحث نہیں کرتا مگر ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا لفظ ہندوستان مٹ چکا ؟کیا ہند کے مسلمانوں پر ظلم کا بازار رک گیا ؟کیا ہندو کی بدمعاشیاں ابھی بھی جاری نہیں ہیں؟کیا اللہ کے نبی کا فرمان کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا تم نے پڑھا نہیں؟ کیا کتاب اللہ اور کتب احادیث جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ کے احکامات سے بھری ہوئی نہیں ہیں ؟

کیا ہند میں موجود تیس کروڑ مسلمان امن و سکون سے زندگیاں گزار رہے ہیں اور کیا وہاں ان کو مذہبی آزادی مکمل حاصل ہے ؟ کیا ابھی محض بیس سال قبل ہی انڈین گجرات میں مسلمانوں کو زندہ نہیں جلایا گیا ؟کیا ہند کی مساجد کو گرا کر مندر نہیں بنائے جا رہے ؟ کیا قرآن کی یہ آیت معاذاللہ منسوخ ہو گئی ؟
آیت یہ ہے باترجمہ

وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَاۚ-وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا ﳐ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ(۷۵)

اور تمہیں کیا ہوگیا کہ تم اللہ کے راستے میں نہ لڑو اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر (نہ لڑو جو) یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس شہرسے نکال دے جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لئے اپنی بارگاہ سے کوئی مددگار بنا دے-

کیا آج بھی ہند و کشمیر کی بہن بیٹیاں ہمیں پکارتی نہیں کہ ہماری مدد کرو ؟ بھئی جب یہ ساری نشانیاں بموجب جہاد ابھی باقی ہیں تو پھر غزوہ ہند کیسے ہو چکا ؟

وہ تو محمد بن قاسم نے ابتداء کی تھی ہند پر یلغار کی اس سے آگے محمود غزنوی و دیگر اس غزوہ ہند کو نے آگے بڑھایا مجاھدین کشمیر و پاک فوج اس وقت غزوہ ہند کا دستہ ہے جبکہ ہندوستان کی مکمل بربادی اور قرب قیامت تک یہ سلسلہ چلتا ہی رہنا ہے

ہاں وہ الگ بات ہے کہ کل کو ماضی میں آج کے کچھ آزاد ممالک بھی ہند کا حصہ تھے مگر ہند کا لفظ ابھی باقی ہے اور بہت سارا علاقہ ابھی باقی ہے اور کچھ بعید نہیں قرب قیامت یہ ہند بلکل چھوٹا سا زمین کا ٹکرا رہ جائے یا ہو سکتا ہے ہندو نجس پلید اپنے آگے والے چھوٹے چھوٹے ممالک پر قبضہ کرکے اس ہند کا حصہ بناتا رہے یہ سب آنے والے وقت کی باتیں ہیں مگر خدارا ہوش کیجئے احادیث نبویہ و فرمان الہٰی پر عمل کیجئے اور اپنے کشمیری و ہندوستانی بھائیوں کی مدد کیجئے جو کہ قرآن و حدیث سے تین صورتوں میں ثابت ہے –

جہاد بالنفس، جہاد مال یعنی اپنے مال سے جہاد ،جہاد پر ابھارنا یعنی جہاد کیلئے ترغیب دینا چاہے و زبان سے دی جائے یا قلم سے یا کسی اور طریقے سے یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ کونسا جہاد کر سکتے ہیں لازم نہیں کہ آپ ہتھیار پکڑ کر ٹکرا جائیں کیونکہ جہاد بھی بغیر جماعت کے ہوتا نہیں-

Leave a reply