افغان قیادت بری طرح سے بھارتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ملوث ہوچکی ہے ۔ جیسے جیسے طالبان افغانی زمین پر قابض ہورہے ہیں ویسے ویسے افغان قیادت اس کا غصہ پاکستان پر نکال رہی ہے ۔ تاشقند میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور افغان نائب صدر کا پاک فضائیہ پر بچگانہ الزام اور پھر صحافیوں کا ثبوتوں کے لیے پیغامات ارسال کرنا اور موصوف کا جواب نہ دینا اور پھر اسلام آباد میں افغانی سفیر کی بیٹی کا مبینہ اغوا ان سب کو جوڑ کر دیکھیے اور پچھلے دنوں میں طالبان کے ہاتھوں میں گئے افغانی علاقوں کو دیکھیے تو بات سمجھ آجاے گی ۔ پاکستان جہاں افغان قیادت کے ساتھ کھڑا ہے وہی وہ کوشش کررہا ہے کہ افغانی قیادت کا پاکستان پر اعتماد بحال رہے لیکن افغان صدر کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اپنی غیر تربیت یافتہ فوج کے ساتھ پاکستان پر چڑھائی کرکے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرسکیں۔ اس لیے وہ اس طرح کے الزامات لگاکر پاکستان کو بدنام کرنا چاہ رہے ہیں ۔
افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا ہونا جتنا قابل مذمت ہے اتنا ہی قابل غور بھی ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں نے اپنی تفتیش میں سوالات کا انبار کھڑا کردیا ہے ۔ مختلف 3 علاقوں میں ٹیکسیوں میں سفر کرنا بذات خود ایک بڑا سوال ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ تھانہ کوہ سار کی حدود میں واقع بلیو ایریا میں پیش آیا جہاں پر افغان سفیر کی بیٹی خریداری کے لیے گئی تھی کہ واپسی پر گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے نامعلوم مسلح افراد انھیں اغوا کر کے نامعلوم مقام پر لے گئے۔ اطلاع کے مطابق افغان سفیر نجیب اللہ کی بیٹی اپنے بھائی کے لیے تحفہ خریدنے بلیو ایریا گئی اور واپس گھر جانے کے لیے انھوں نے ایک ٹیکسی کو روکا۔ جب وہ گاڑی میں سوار ہونے لگیں تو ایک نامعلوم شخص ان کی گاڑی میں سوار ہو گیا جس پرلڑکی نے اعتراض کیا اور گاڑی سے نکلنے کی کوشش کی تو اسی دوران ایک اور نامعلوم شخص زبردستی ان کی گاڑی میں بیٹھ گیا اور ان کے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ کروایا اور پھر تشدد کیا جس سے وہ بے ہوش ہو گئیں۔ رپورٹ کے مطابق افغان سفیر کی بیٹی کو جب ہوش آیا تو انھوں نے خود کو ایک جنگل میں پایا اور جب انھوں نے ایک راہ گیر سے اس جگہ کے بارے میں دریافت کیا تو ان کو بتایا گیا کہ یہ سیکٹر ایف سیون کا علاقہ ہے۔پولیس کو ملنے والی اطلاع کے مطابق افغان سفیر کی بیٹی نے وہاں سے ایک اور ٹیکسی کرائے پر لی اور ایف نائن پارک میں جا کر وہاں سے اپنے ایک جاننے والے کو فون کیا اور پھر وہاں سے سرکاری گاڑی میں واپس اپنے گھر پہنچ گئیں۔ جب کہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ افغان سفیر کی بیٹی کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ یہ عالمی سازش اور را کا ایجنڈا ہے۔ پولیس کے مطابق افغان سفیر کی بیٹی کا بیان تفتیش کے ساتھ میل نہیں کھاتا ۔ اور یہ کہ یہ ایک بلائنڈ کیس ہے ۔ گھر میں گارڈز کی موجودگی اور گاڑیوں کا ہمہ وقت موجود ہونا اور پھر کرایے کی گاڑیوں میں سفر کرنا اور چند گھنٹوں کے گزرنے کے بعد اطلاع کا پولیس کو دینا بذات خود اپنی جگہ اہم سوالات ہیں ۔ اور اطلاعات کے مطابق سفیر صاحب مع اپنے دیگر عملہ کے پاکستان چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔کیوں کہ اب سوالات کی بوچھاڑ سے وہ اپنا کھیل برباد نہیں کرنا چاہ رہے تھے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کرداروں نے ڈراما اس انداز سے نہ کیا ہو جیسا کہ ہدایت کار نے بتایا تھا ۔
یہ تو وہ باتیں تھیں جو آپ تک مختلف ذرائع کے پہنچ چکی ہیں۔ یہ سارے واقعات ایسے وقت میں وقوع پذیر ہوے ہیں جب پاک افغان قیادت کے درمیان لفظی گولہ باری عروج پر ہے ۔ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد طالبان مسلسل فتح یاب ہورہے ہیں اور افغان قیادت اپنی پسپائی کو پاکستان کے کھاتے ڈال رہی ہے۔ پاکستانی قیادت نے جب تفتیش کا دائرہ کار بڑھایا اور سوالات سامنے رکھے جنھوں نے اس سارے ڈرامے کو عیاں کردیا کہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے تو افغان قیادت بھارت کی طرح بھاگ کھڑی ہوئی ۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ جیسے پاکستان نے بھارت کو بھارت میں ہوے حملوں میں تعاون کی یقین دہانی کروائی کہ وہ ثبوت فراہم کرے تاکہ پاکستان تحقیقات کرسکے تو بھارت نے حیلوں بہانوں سے جان چھڑوانے کی کوشش کی ۔ افغانستان اس وقت مکمل طور بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں ۔ پاکستان نے ابھی تک افغان حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں یہ الگ بات ہے کہ افغان حکومت اندرون خانہ بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے میں مصروف عمل ہے جس کا خمیازہ وہ اپنے علاقے طالبان کے قبضے میں کروا کر بھگت رہے ہیں ۔ افغان قیادت اگر مخلص ہے تو اپنے علاقوں کی فکر کرے نہ کہ پاکستان پر الزامات لگاکر اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کرے ۔