حوصلے کیوں بڑھتے ہیں ۔۔۔۔ تحریر: آصف گوہر

ارشاد باری تعالی ہے
"جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وه قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔”
سورة المائدة 33
گذشتہ چند روز سے تسلسل کے ساتھ دل دہلا دینے والے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں کبھی کسی نواجوان لڑکی کا گلا کاٹ دیا جاتا ہے کبھی مینار پاکستان پر ہجوم خاتون کے ساتھ دست درازی کی خبر ملتی ہے کم سن بچیوں کے ساتھ درندگی اور چنگ چی رکشہ پر بیٹھی خواتین کے ساتھ چلتی سڑک پر بھیڑیا نما انسانوں کی چھیڑ خانی کی واردت ۔ان سب لرزہ خیز وارداتوں نے بیٹیوں والوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں کہ اس غیر محفوظ معاشرے میں اپنے بچوں کو کیسے محفوظ رکھا جائے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ ان درندوں کے حوصلے کیوں بڑھ گئے ہیں ان کو کیوں پکڑے جانے اور سزا کا خوف نہیں
۔۔؟
وجہ صرف اور صرف لاقانونیت پراسیکیوشن اور عدالتی نظام کی مکمل ناکامی اور غیر مساوات پر مبنی فیصلے ہیں ہمارا انصاف کا نظام امیر آدمی کو فوری اور سستا انصاف مہیا کرتا ہے بڑے آدمی کو اگر ماتحت عدالتیں سزا بھی دے دیں تب بڑی عدالت کی مداخلت سے وہ مکھن سے بال کی طرح سرخرو ہو کر نکل جاتا ہے ۔نیب ملزمان کو بڑے بڑے اسکینڈلز میں گرفتار کرتا تو ہے لیکن کمزور تفتیش اور پراسیکیوٹرز کی وجہ سے چند ماہ بعد وہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے نظام کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے۔ مرضی کی جعلی میڈیکل رپورٹس تیار ہو جاتیں ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جیل بند مجرم کو وی وی آئی پی پروٹوکول دے کر بیرون ملک فرار ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے چھٹی والے دن ضمانتیں منظور کر لی جاتیں ہیں ۔ عدالت کو بتائے بغیر ملزم کو دوبارہ گرفتار نہ کرنا کا حکم دیا جاتا ہے۔ ایم پی اے اپنی گاڑی کے نیچے ٹریفک پولیس کے اہلکار کو کچل کر بھی سزا سے بچ جاتا ہے ۔جب عام عوام انصاف کا یہ عالم دیکھتے ہیں تو سفاک مجرموں اور شوقیہ جرم کرنے والوں کے حوصلے بڑھتے ہیں اور وہ درندگی پر اتر آتے ہیں انسانوں پر کھلے عام تشدد کرتے ہیں شرفا کی عزتیں پامال کرتے ہیں اور پھر ان سے نہ کسی کی بیٹی محفوظ ہوتی ہے نہ بہن ۔ ہمارے ہاں پتا نہیں کیوں پبلک میں سرعام سزا دینے سے گریز کیا جاتا ہے اعدادوشمار اٹھا کر دیکھیں لیں جن ممالک میں سرعام لٹکانے کوڑے مارنے اور سر کاٹنے کی سزا پبلک میں دی جاتی ہے وہاں پر جرائم کی شرح بہت کم ہے۔
کسی معاشرہ میں جب انصاف کا نظام زمین بوس ہوجائے پھر وہاں لاقانونیت اور انارکی کا راج ہوتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان گھناونے اور انسانیت کے خلاف جرائم بارے سخت قانون سازی کی جائے خصوصی عدالتوں کے ذریعے تیز ترین کاروائی سماعت کرکے پبلک میں سزاوں کا نفاذ کیا جائے تاکہ بیمار ذہن درندوں کو عبرت حاصل ہو۔ قرآن نے معاشرے میں فساد پھیلانے والے سفاک مجرموں کو قتل کربے سولی چڑھانے ان کے ہاتھ پاوں کاٹنے ،اور انہیں جلاوطن کرنے کا حکم دیا ہے ۔تاکہ مسلم معاشرے انسانیت سوز جرائم سے محفوظ رہیں ۔
@Educarepak

Comments are closed.