مافیاز،اپوزیشن،پاکستان مخالفین اورکرونا جیسی آفات کے باوجود کپتان کا سفرکیسا رہا

0
45

لاہور:مافیاز،اپوزیشن،پاکستان مخالفین اورکرونا جیسی آفات کے باوجود کپتان کا سفرکیسا رہا ،سال 2020 تقریبا ختم ہو گیا ہے۔ جس وبا نے دنیا کی معشتوں کونگل لیا وہ پاکستان پر بھی ایسے ہی حملے کررہی ہے ، کرہ ارض پر شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو جو سال 2020 میں کویڈ 19 کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر قوموں تک شاید سب متاثر ہوئے ہیں۔

مافیاز،اپوزیشن،پاکستان مخالفین اورکرونا جیسی آفات کے باوجود کپتان نے کیا کامیابیاں حاصل کیں وہ بہت زیادہ ہیں تاہم ان کا اجمالی ساخاکہ ہی بیان کرنا مناسب ہے

‎اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت کا دارومدار ڈالر کے اتار اور چڑھاؤ کے ساتھ منسلک ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف ڈالر ہی معاشی ترقی و تنزلی کا پیمانہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر عوامل موجود ہیں جو معاشی سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج ہم بیشتر پہلووں کا جائزہ لیں گے۔ آئیے سب سے پہلے ڈالر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

‎یکم جنوری 2020 کو پاکستان میں ڈالر کی قیمت تقریباً 154 روپے تھی اور دسمبر 2020 میں اس کی قیمت تقریباً 160 روپے پچاس پیسے ہے۔ ایک سال کے دوران ڈالر کی قیمت تقریباً 170 بھی رہی ہے۔ تقریباً بارہ روپے کی کمی کامیاب حکومتی پالیسیوں کی بدولت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

سب سے پہلے اسی موضوع پرآتے ہیں کہ ڈالرکوپاکستان میں لانے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیئے ، یہاں روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ڈالر اکاونٹس پر سات فیصد تک منافع کی پرکشش آفر کی جبکہ دنیا میں یہ شرح 0.5 فیصد سے ایک فیصد تک ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک بیٹھے آسان شرائط پر آن لائن اکاونٹ کھلوانے کی سہولت بھی مہیا کر دی۔

ادئیگیاں بھی آن لائن ہوں گی اور وصولیاں بھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چند ماہ میں ہزاروں روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کھل گئے ہیں۔ جن میں کروڑوں ڈالرز جمع بھی ہو گئے ہیں۔۔ 23 نومبر 2020 تک پاکستان تقریباً سولہ ارب روپے حاصل کر چکا ہے۔

‎اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کے سخت قوانین نے ڈالر کو 170 روپے کی سطح سے نیچے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سخت سزاؤں کی بدولت جعلی منی چینجرز نے کاروبار بند کر دیے ہیں اور بیرون ملک پاکستانی آفیشیل چینل کے ذریعے رقم پاکستان بھجوانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ایک اہم وجہ کویڈ 19 ہے۔ جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف ملا ہے۔ ریلیف حاصل کرنا بھی تحریک انصاف حکومت کی کامیاب سفارتکاری کا ثبوت ہے۔پاکستان جی 20 ممالک سے بھی تقریباً 800 ملین ڈالر قرضوں کی ادائیگیوں میں وقت لینے میں کامیاب ہو گیا ہے۔گو کہ آج بھی ڈالر کی قیمت جنوری 2020 سے ذیادہ ہے لیکن ڈالر کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومتی کاوشیں بہتر دکھائی دیتی ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے بھی برآمدات بڑھانے کے لیے بہترقدامات کیے ہیں۔ اگر پچھلے بارہ ماہ کی بات کی جائے تو نومبر 2019 میں پاکستان کی برآمدات تقریباً دو ارب ڈالر تھیں اور نومبر 2020 کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو ان کے مطابق برآمدات میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کرونا کے باوجود ایک سال میں یہ کارکردگی زیادہ حوصلہ افزا دکھائی دیتی ہے۔ اگر ان بارہ مہینوں کے درمیان کارکردگی دیکھی جائے ایشیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں معاشی سرگرمیاں کم عرصے تک بند رہی ہیں۔

ہندوستان اور چائنا میں ہونے والے نقصان کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے بیشتر آرڈر چین اور ہندوستان سے کٹ کر پاکستان کو ملے ہیں۔جو کہ کامیاب حکومتی برآمدات پالیسی کام منہ بولتا ثبوت ہے۔

ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی مکمل کپیسٹی پر کام کر رہا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں حکومت نے ٹیکس ریفنڈ اور بجلی کے نرخوں میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو جو مراعات دی ہیں ان کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔

موجودہ حکومت کی مثبت پالیسیوں کی بدولت بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کو کپاس کا وہی ریٹ مل رہا ہے جو چائنا، بھارت، بنگلہ دیش کو ملتا ہے لیکن فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کی وجہ سے اخراجات بھی پورے نہیں ہو پاتے اس لیے کپاس کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ٹیسکٹائل سیکٹر اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کپاس درآمد کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

‎سال 2020 اس اعتبار سی بھی بہتر ہے کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے پاک افغان تنازعات کو کم کرنے کی عملی کوشش کی گئی ہے۔ وفود آ جا رہے ہیں۔ سفارتی سطح پر ملاقاتیں جاری ہیں۔ اکتوبر 2020 میں افغانی وفد پاکستان آیا۔ تجارت بڑھانے کی بات ہوئی۔ نومبر 2020 میں رزاق داؤد صاحب افغانستان پہنچے اور ان کے پیچھے وزیراعظم عمران خان بھی افغان صدر سے ملاقات کرنے پہنچ گئے۔ تجارت کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں ختم ہوئیں۔

سب سے اہم موضوع پاکستان کے ٹرکوں کو ازبکستان، تاجکستان اور آزربائیجان تک براہ راست رسائی دینے سے متعلق تھا۔ خبر ہے کہ اس معاملے پر کافی کام ہو چکا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ راستے پاکستان کے لیے کھل جائیں گے جس سے برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی۔

افغان سپئئر پارٹس اور سگریٹ پاکستان کی منفی لسٹ میں شامل ہیں جس سے پاکستان میں استعمال شدہ گاڑیوں کے سپیئر پارٹس مہنگے ہو گئے ہیں۔ ان میٹنگز میں انھیں منفی لسٹ میں سے نکالنے پر بھی کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ان اقدامات نے تاجروں کے لیے نئی امیدیں پیدا کی ہیں اور دونوں اطرف کی بزنس کمیونٹی اپنی حکومتوں سے خوش دکھائی دے رہی ہے۔

ٹیکس کے معاملات کودیکھا جائے تو پچھلے سال ٹیکس حدف 5.503 ٹریلین روپے تھا جبکہ صرف 3.908 ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا ہو سکا تھا۔ اس کی وجوہات کئی ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کویڈ 19 کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ اس مالی سال کا ٹیکس ٹارگٹ 4.963 ٹریلین روپے طے کیا گیا ہے۔‎حکومت یہ ٹیکس ٹارگٹ حاصل کر پاتی ہے یا نہیں اس کا صحیح حساب جون2021 میں ہو سکے گا

بے روزگاری کے حساب سے 2020 میں شاید پوری دنیا برے وقت سے گزر رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ کویڈ 19 ہے۔ سب سے زیادہ بے روزگاری امریکہ میں دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن پاکستان کی بات کی جائے تو دنیا کے مقابلے میں بے روزگاری کی شرح اتنی ذیادہ نہیں بڑھی ہے۔ سال 2019 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 4.5 فیصد ہے جبکہ سن 2020 میں بھی یہ شرح 4.5 فیصد ہی رہی ہے۔

‎حکومت کے مطابق سال 2020 اس حوالے سے بھی بہتر رہا کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ ختم ہو کر سرپلس میں تبدیل ہو گیا ہے۔پچھلے چار ماہ سے مسلسل کرنٹ اکاونٹ سرپلس رپورٹ ہو رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔

‎حکومتی ڈالر کے ذخائر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پچھلے ماہ کی رپورٹ کے مطابق ڈالر ذخائر ساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح پر آگئے ہیں۔ 17-2016 کے مطابق ڈالر کے ذخائر 21.4 ارب ڈالر تھے۔ 2020 میں ڈالر کے ذخائر 20.4 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔

‎سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق جون 2018 سے جون 2020 میں ختم ہونے والے تحریک انصاف کی حکومت کے دو مالی سالوں میں قرضوں میں 18.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قرضوں کی مالیت 112 ارب ڈالر ہے اسی مالی سال کے اختتام تک پاکستان نے تقریباً 11.89 ارب ڈالر کے قرض واپس کیے

پاکستان میں سیمنٹ، شوگر، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، ایجوکیشن، ٹیلی کام، رئیل سٹیٹ دودھ اور جوس بنانے والے کئی اداروں نے عدالت سے سٹے لے لیا۔ جو کہ گیارہ سال بعد سال 2020 میں ختم ہوا ہے۔ جس سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اشیا کی قیمت اس وقت تک نہیں بڑھائی جا سکے گی جب تک اس کا مکمل حساب کتاب حکومت کے ساتھ شئیر نہیں کر لیا جاتا۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے اس سال اور کیا کیا کامیابیاں حاصل کیں وہ بتارہی ہیں بولتی ہوئی تصاویریں ذرا غور سے دیکھیں کپتان کس تیزی سے چل رہا ہے

 

Leave a reply