اسرائیل کیسے بنا؟ کیوں اتنا طاقت ور ہے؟(تاریخی اور تلخ حقائق) از قلم۔۔۔۔۔۔۔ علی عمران شاھین

0
139

1917 میں پہلی جنگ عظیم زوروں پر تھی اور اس میں برطانیہ تیزی سے فتح حاصل کررہا تھا۔برطانیہ اور اس کے اتحاد کے مقابل جرمنی تھا جس کے اتحادیوں میں سے بڑا کردار ترکی تھا تب موجودہ فلسطین ترکی کی خلافت کا حصہ تھا۔

جرمنی کی پسپائی سے سب سے بڑی شکست ترکی کو ہوئی جس کی وسیع خلافت دیکھتے ہی دیکھتے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ ترک شکست و ریخت سے برطانیہ نے اس علاقے پر بھی قبضہ جمالیا ۔۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کی آخری امید یہی ترک خلافت تھی جس نے 1923میں جنگ عظیم اول کی شکست کے بعد خود ہی اپنے مکمل خاتمے اور اپنی سرحدیں موجودہ ترکی تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ موجودہ ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے کیا اور پھر ملک میں اسلام کی مکمل بیخ کنی اور اہل اسلام پر بدترین ظلم ڈھانے شروع کر دئیے۔

پہلی جنگ عظیم میں اس محیر العقولکامیابی کے بعد دنیا میں انگریز کے مدمقابل کوئی نہیں تھا تو اسی عرصے میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنے ملکوں سے دھڑا دھڑ یہودی یہاں اس مقبوضہ علاقے یعنی فلسطین میں لانے اور آباد کرنے شروع کر دئیے،یہودیوں کو یہاں بسانے اور قابض بنانے کے لیے(فلسطینی جو پہلے ہی مظلوم تھے)سے جبراً اور بھاری معاوضہ دے کر دونوں طریقوں سے زمینیں خریدی گئیں اور انہیں یہاں سے تیزی سے نکالا گیا۔

دوسری جنگ عظیم میں جب پھر سےجرمنی کو شکست ہوئی تو وہاں ہٹلر کی مار کا شکار بننے والے یہودی بھی مظلوم قرار دے کر یہاں لائے جاتے اور آباد کئے جاتے رہے کیونکہ ساری عالمی طاقت تو برطانیہ اور بڑے فاتح امریکا کے پاس تھی جنہوں نے اسی عرصے میں یو این بھی بنائی۔۔۔۔۔ اسی دوران میں یہودی یہاں آتے اور فلسطینی بے دخل ہوتے رہے۔

یہاں آباد ہونے والے ان یہودی کے ساتھ ساری عالمی طاقتیں تھیں جو ایک طرف اپنے ملکوں میں فساد ڈالنے والی اس مغضوب قوم سے تنگ تھیں تو ساتھ ہی ان سے نجات کے لئے مقدس سرزمین فلسطین میں انہیں بسا کر مسلم دنیا کے عین سینے میں خنجر بھی گھونپ رہی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں آزاد مسلم ممالک محض چند ایک تھے اور ان کی حیثیت بھی برائے نام تھی۔

عرصہ 30سال میں جب یہاں یہودیوں کی ایک معقول تعداد جمع ہوگئی تو انہوں نے اپنے آزاد ملک کا اعلان کر دیا جسے امریکا وغیرہ کے بعد فوری طور پر مئی 1948 میں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کرلیا۔یوں اسرائیل ایک باقاعدہ قانونی ریاست بن گیا جس پر حملہ عالمی جرم قرار پایا۔

اس کے بعد سے اب تک یہی ساری عالمی صلیبی طاقتیں پوری قوت کے ساتھ اسرائیل کی ہر طرح سے مدد و حمایت میں کھڑی ہیں، عرب ممالک جن کی معاشی و عسکری قوت تب محض برائے نام تھی، نے اسرائیل کو ختم کرنے کے لیے باربار کئی جنگیں لڑیں لیکن عالمی طاقتوں خصوصاً امریکا کی مکمل آشیر باد اور تمام تر جنگی ٹیکنالوجی کی فراہمی کی وجہ سے اسرائیل کو نہ شکست دی جاسکی اور نہ نکالا جا سکا۔یہی صورت حال آج تک قائم ہے

اس سارے قضیے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جس القدس کی خاطر یورپی صلیبی ہمیشہ مسلمانوں سے جنگیں لڑتے رہے اور قتل عام کرتے اور اور اپنی افواج کا کرواتے رہے وہ اسی القدس سے اب یہود کے حق میں صرف دست بردار ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کے محافظ بن گئے۔

اسرائیل سے زیادہ اس کی پالنہار عالمی طاقتوں کے خوف اور مسلسل ہمہ جہت دباؤ کے باعث عرب بھی آہستہ اہستہ پسپا ہوئے، اس پسپائی دوسری بڑی وجہ یہ بنی کی فلسطینیوں کی قیادت حیران کن طور پر پہلے ایران اور پھر ترکی کے زیر اثر چلی جاتی گئئ،

کمال حیرت یہ ہے کہ یہ دونوں ملک وہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا اور جب بھی عربوں نے اسرائیل سے جنگیں لڑیں یہ دونوں ملک ہی الگ تھلگ رہے، ان میں سے کبھی کسی نے کسی فلسطینی مہاجر کو پناہ تک نہ دی۔

ایک زمانے سے آج تک حما س اور ساری فلسطینی قیادت کا ہیڈکوارٹرز قطر ہے۔ 70لاکھ فلسطینی یہیں خلیجی ملکوں میں پناہ گزین بلکہ اب عرب ملکوں کے شہری ہیں اور غزہ و مغربی کنارہ والوں کی زندگی اول دن سے عربوں ہی کے پیسے سے چلتی ہے۔ اس کے باوجود ان کی نجانے پینگیں کیوں ترکی اور ایران سے پڑی ہوئی ہیں جو انہیں صرف نعروں سے بہلاتے ہیں،

ایران نے اگرچہ موجودہ مذہبی انقلاب کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ تو واپس لیا لیکن یہ قدم ایک دکھاوے سے زیادہ کچھ نہ رہا۔ترکی کی فلسطین سے ہمدردیاں بجا لیکن انہوں آج تک کبھی اسرائیل سے کسی قسم کے تعلقات منقطع نہیں کئے اور نہ آج تک ایران نے اسرائیل پر کبھی ایک گولی چلائی نہ کبھی دنیا میں اس کے مفاد کو کوئی معمولی گزند پہنچائی۔یہ سب دیکھتے ہوئے بھی حیران کن طور پر حما س کی قیادت کو یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ دنیا میں کون ان کا دوست ہے اور کون دشمن؟

ان کی اسی لامتناہی خلیج مخالف اور غیر عرب ملکوں کی پراسرار دوستی سے تنگ آکر اور یورپ و امریکا کے جبر و دباؤ کے باعث اسرائیل سے آج یہی عرب بالآخر تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلہ فلسطین روئے زمین کی اس بہادر ترین قوم کی وجہ سے ہی زندہ ہے کہ انہیں اسرائیل کبھی نہیں جھکا سکا۔ہمیں اللہ پر پورا یقین ہے کہ جب تک ایک بھی فلسطینی زندہ ہے اسرائیل کبھی نہ چین کی نیند سو سکتا ہے نہ القدس پر اس کا قبضہ مکمل ہوسکتا ہے اور نہ یہ قضیہ کبھی ختم ہوسکتا ہے ۔

اسی کے ساتھ ان فلسطینیوں کی دوسری طرف غلطی یہ رہی کہ انہوں نے اپنے دوست و اتحادی کو پہچاننے اور اسی سے تعلق استوار کرنے میں ہمیشہ خطا کی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ آج بھی حما س جس ایران کو اپنا اتحادی اور سب سے بڑا ہمدرد سمجھتی ہے وہ ان کے لئے کوئی عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں بلکہ انہوں نے کبھی حما س کو اپنے ہاں ٹھکانا بھی بنانے کی اجازت نہیں دی۔

اگر اس غلطی کی آج بھی اصلاح ہو جائے تو ضرور اس مسئلے کا فوری و پائیدار حل نکل آئے۔

تحریر👇

اسرائیل کیسے بنا؟
کیوں اتنا طاقت ور ہے؟(تاریخی اور تلخ حقائق)
از قلم۔۔۔۔۔۔۔ علی عمران شاھین

Leave a reply