ہم اچھے باپ کیوں نہیں بنتے؟ — اعجازالحق عثمانی

0
33

دنیا میں ہر جنس پر ظلم ہوتا ہے ۔ مگر سوائے بچےکے ہر عمر ، ہر طبقہ اور ہر جنس اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتا ہے ۔ مگر بچہ یہ سب نہیں کر سکتا ۔ وہ بہت کمزور ہے ۔اتنا کمزور کہ وہ اپنے حق کے لیے بول بھی نہیں سکتا۔ خواجہ سراؤں پر ظلم ہوا تو انھوں نے احتجاج کیے، خواتین نے اپنی تنظیمیں بنائی ۔ یہاں تک کہ رکشے والوں کی یونینز ہیں۔ مگر کوئی تنظیم نہیں ہے تو بچوں کی نہیں ہے ۔

نفسیات دانوں کا شکر ہو جنھوں نے ہمیں علم نفسیات کے ذریعے بتایا کہ بھئی بچے بھی کوئی الگ شے ہیں۔ تم سے مختلف اور کمزور ہیں، جسمانی طور پر بھی اور عقلی طور پر بھی۔ انکا عقل درجہ بہ درجہ وقت کے ساتھ ترقی کی منازل طے پاتا ہے۔اگر کسی بچے کو میوزک کی آواز آرہی ہے ۔مگر آپ دور بیٹھے اسکو والیم اونچا کرنے کا کہتے ہیں تو وہ والیم تو بڑھا دے گا مگر یہ ضرور سوچتا رہے گا کہ جب اسے سننے میں کوئی دقت نہیں ہو رہی تو آپکو کیوں ہو رہی ہے۔ اگر بچہ مٹی سے کھیلتے ہوئے ہم سے پوچھ لے کہ مٹی کا رنگ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ہم یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ نے ایسا بنایا ہے یا کچھ اور کہہ کر بس جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ تو بچوں کو سوال پر ہی ڈانٹ دیتے ہیں ۔ جواب تو دور کی بات ۔۔۔۔۔۔

اگر کوئی بچہ کم بولتا ہے تو اس مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ نکما ہے۔علم نفسیات میں ایسے بچوں کو انٹروورٹ کہا جاتا ہے ۔ ایسے بچے کچھ بڑا کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں ۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کو شرمیلا اور کمزور سمجھا جاتا ہے ۔گو کہ انٹروورٹ ہونا کوئی بری بات نہیں، یہ صرف ایک پرسنلٹی ٹریڈ ہے ۔ 90 فی صد سائنسدان، شاعر ، ادیب یا موجد انٹروورٹ ہی ہوتے ہیں ۔

آپکا خاندان یا معاشرہ تو انٹروورٹ ہونے پر آپ کے بچے کی کبھی تعریف نہیں کرے گا۔مگر یہی انٹروورٹ بچہ زندگی میں کبھی ایسا کام ضرور کرے گا جس سے آپکا سر فخر سے بلند ہو جائے گا ۔ سو ایسے بچوں کی حوصلہ شکنی کبھی نہ کریں ۔آپ شدید حیران ہونگے یہ سن کر کہ دنیا کا ہر دوسرا امیر ترین آدمی انٹروورٹ ہے۔ٹیسلا کے ارب پتی مالک نے ایک بار ایک انٹرویو میں کہا تھا، "میں بنیادی طور پر ایک انٹروورٹڈ انجینئر کی طرح ہوں، اس لیے اسٹیج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”

ہم بچوں کا ہر موڈ برداشت نہیں کرتے ۔ چاہتے ہیں کہ بچے ہر وقت خوش رہیں۔ ان کے بھی اپنے جذبات ہوتے ہیں ، انھیں بھی خوشی اور غمی کا احساس ہوتا ہے۔ مگر ہم اس بات کو سمجھنے سے ابھی قاصر ہیں ۔ صرف اسی بات کو نہیں، بلکہ بچوں کو بچہ سمجھنے میں بھی ابھی ہمیں صدیاں درکار ہیں ۔

جیسے بچوں کو پیدائش کے بعد سیکھنے کے لیے سکول بھیجا جاتا ہے ۔کاش بچہ پیدا کرنے سے پہلے والدین کےلیے بھی بچے کو سمجھنے اور تربیت کی خاطر کسی ڈگری کی شرط ہوتی ۔

Leave a reply