ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
شان الحق حقی
شاعر ابن شاعر، ماہر لسانیات، محقق و مترجم
15 ستمبر 1917: یوم ولادت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
60 سے زائد کتابوں کے مصنف ، ماہر لسانیات ، نقاد ، شاعر اور مترجم شان الحق حقی 15 ستمبر 1917 میں دہلی میں معروف شاعر اور مترجم مولانا احتشام الحق حقی المعروف ناداں دہلوی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ وہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے خانوادے کی تیرہویں پیڑھی سے تھے اور ڈپٹی نذیر احمد کے پڑ نواسے تھے۔ ان کے والد ایک عالم ، و شاعر اور مترجم تھے جنہوں نے دیوان حافظ شیرازی اور رباعیات عمر خیام کا فارسی زبان سے اردو زبان میں ترجمہ کیا۔ شان الحق حقی اڑھائی سال کی عمر کو پہنچے تو ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا چناں چہ انہیں ان کی پھوپھی کے پاس پشاور بھیج دیا گیا مڈل تک انہوں نے پشاور میں تعلیم حاصل کی جس کے بعد واپس دہلی لائے گئے ۔ دہلی اور علی گڑھ سے اعلی تعلیم حاصل کی ۔ لندن میں ذرائع ابلاغ کا کورس بھی مکمل کیا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد اگست 1947 میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ دہلی سے کراچی منتقل ہو گئے ۔ وہ کراچی سے شائع ہونے والے ” ماہ نو” کے دو سال تک چیف ایڈیٹر رہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن ، فلمسازی اور یونائٹڈ اشتہارات کراچی کے ڈائریکٹر اور آرٹس کونسل کی مجلس انتظامیہ کے رکن و دیگر کئی سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے سب سے اہم علمی کام آکسفرڈ ڈکشنری کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جو کہ 22 جلدوں پر مشتمل ہے جس کی اب تک 25 لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔ ان کی دیگر تصانیف میں ، انتخاب کلام ظفر، انجان راہی (امریکی ناول گار جیک شیفر کے ناول SHANE کا ترجمہ) تار پیرہن(منظومات) دل کی زبان، پھول کھلے ہیں ، نکتہ راز، افسانہ در افسانہ(خود نوشت / سوانح حیات ) حرف دل رس (غزلوں کا مجموعہ)، شاخسانے، نقد و نگارش، ، آئینہ افکار غالب، درپن درپن(مختلف زبانوں کی شاعری کا ترجمہ)، لسانی مسائل و لطائف ، نوک جھونک ،سہانے ترانے، حافظ ایک مطالعہ، لسان الغیب، تیسری دنیا، صور اسرافیل(بنگالی شاعر قاضی نذرالسلام کی نظموں کا ترجمہ) ن، نوائے ساز شکن (ان کی شاعری کا آخری مجموعہ) و دیگر کتب شامل ہیں ۔ وہ اردو، عربی، فارسی، انگریزی ، ہندی ، سنسکرت ، ترکی اور فرانسیسی زبان پر عبور رکھتے تھے ۔
حکومت پاکستان کی جانب سے شان الحق حقی صاحب کو ان کی اعلی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز اور قائد اعظم ایوارڈ ایوارڈ دیا گیا جبکہ اسلام آباد میں ایک سڑک ” شان الحق حقی روڈ” کے نام سے منسوب کیا گیا ۔ 11 اکتوبر 2005 میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کے ایک ہسپتال میں داخل پھیپڑوں کے سرطان کے دوران علاج ان کا انتقال ہوا اس موقع پر ان کی اہلیہ سلمی Salma اور بیٹا شایان حقی وہاں پر موجود تھے ۔
نمونہ کلام (جسے ناہید اختر نے خوب صورت آواز میں گایا ہے)
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
دل کے ماروں کا نہ کر غم کہ یہ اندوہ نصیب
زخم بھی دل میں نہ ہوتا تو کراہے جاتے
کم نگاہی کی ہمیں خود بھی کہاں تھی توفیق
کم نگاہی کے لئے عذر نہ چاہے جاتے
کاش اے ابر بہاری ترے بہکے سے قدم
میری امید کے صحرا میں بھی گاہے جاتے
ہم بھی کیوں دہر کی رفتار سے ہوتے پامال
ہم بھی ہر لغزش مستی کو سراہے جاتے
لذت درد سے آسودہ کہاں دل والے
ہیں فقط درد کی حسرت میں کراہے جاتے
ہے ترے فتنۂ رفتار کا شہرا کیا کیا
گرچہ دیکھا نہ کسی نے سر راہے جاتے
دی نہ مہلت ہمیں ہستی نے وفا کی ورنہ
اور کچھ دن غم ہستی سے نباہے جاتے
شان الحق حقی