ہم نہ سافٹ اور نہ ہارڈ مداخلت تسلیم کرتے ہیں،فضل الرحمان
پی ڈی ایم اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت کو کہا جاتا ہے ہدایات پر چلنا ہے .
پرویز الہیٰ کی درخواست،سپریم کورٹ کا تحریری حکم جاری
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ ادارے خاموش بیٹھ جائیں تو کوئی بحران نہیں، عمران خان ہمارے لیے چٹکی بھی نہیں، بلا بنا کر پیش نہ کیا جائے، ہم عمران خان کی اوقات جانتے ہیں اور وہ ہمیں جانتا ہے، ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے.ان کا کہنا تھاکہ بلاوجہ اگر بحران پیش کرنا ہے تو عام آدمی کو پیش کر دو، ملک کو بحران میں کون مبتلا کر رہا ہے کھل کر بات کرنی چاہیے۔
ہمیں دھکیل کر نکالا گیا تو الیکشن نہیں آئے گا ،مسلم لیگ ن
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ وزیر اعظم کو یونٹی آف کمانڈ کی حیثیت حاصل ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف تین بار وزیر اعظم اور شہباز شریف تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے ہیں، ن لیگ کے لوگ وزیر رہ چکے ہیں، سب معززین ہیں، ایک ایک کو پکڑ کر جیل میں ڈالا، گالیاں دیں اور بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئےسربراہ پی ڈی ایم نے اپنی اتحادی حکومت سے شکوہ کیا کہ عمران خان کی حکومت میں جو گھپلے ہوئے اس پر ہم کیوں خاموش ہیں؟ ان گھپلوں پر ہم کیوں خاموش ہیں یہ میری اپنی حکومت سے شکایت ہے۔ عمران خان میں صلاحیت ہی نہیں وہ کسی کو مجبور کر سکے، عمران خان اتنی بڑی سیاسی قوت نہیں، اس کی کسی دھمکی کو بنیاد بنا کر ’پر‘ کو ’پرندہ‘ بنانا مشکل بات نہیں۔
فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ ہم نہ سافٹ اور نہ ہارڈ مداخلت تسلیم کرتے ہیں، ہمیں آئین کے مطابق اپنا کام کرنے دیا جائے، سیاستدانوں اور پارلیمنٹ کو کام کرنے دیا جائے، روز روز کی مداخلتیں ملکی نظام کو معطل کر دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب سےنئی حکومت آئی، دونوں قوتیں غیرجانبداربھی ہوگئیں اورنیوٹرل بھی۔ اس حکومت کیلئے روز روز مسائل پیداکرنا، یہ رویہ بھی ہم دیکھ رہےہیں، نئی نئی تجویزیں آرہی ہیں کہ نئے الیکشن ہونے چاہیں.
عدالتی بینچز کے حوالے سے جے یو آئی سربراہ کا کہنا تھاکہ کسی فریق کے تحفظات ہوں تو اس جج کو کیس کی سماعت نہیں کرنی چاہیے، روز روز نئی لاحقیں فیصلوں کے ساتھ وابستہ نہ کی جائیں، فیصلہ ایک ہوتا ہے، کورٹ ایک ہے، اگروہ کل ایک غلط کرچکے ہیں تو اس کیس کو نہ سنیں، فل کورٹ بیٹھے۔
ان کا کہنا تھاکہ ہمارے ملک میں بند کمروں کی سیاست شروع ہو گئی ہے، ایک ادارہ دوسرے ادارے پراثر انداز ہونے کی سیاست کر رہا ہے، اب یہ سیاست ریاست کی تباہی کا سبب بن رہا ہے اور ذمہ دار ہمیشہ سیاستدان اور سیاسی حکومت کو قرار دیا جاتا ہے، ہم اس صورتحال سے مطمئن نہیں، یہ چیزیں ٹھیک ہوجانی چاہیں۔